متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی


ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی


حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوئے محبت کو
مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی


گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی


یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی


زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی


مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی