مست سحر و توبہ کناں شام کا ہوں میں

مست سحر و توبہ کناں شام کا ہوں میں
قاضی کے گرفتار نت اعلام کا ہوں میں


بندہ کہو خادم کو چاکر کہو مجھ کو
جو کچھ کہو سو ساقیٔ گلفام کا ہوں میں


خدمت میں مجھے عشق کی ہے دل سے ارادت
نے معتقد کفر نہ اسلام کا ہوں میں


یک روز حلال اس کو بھی میں کر کے نہ کھایا
نوکر جو خرابات میں دو جام کا ہوں میں


نے فکر ہے دنیا کی نہ دیں کا متلاشی
اس ہستئ موہوم میں کس کام کا ہوں میں


یک رنگ ہوں آتی نہیں خوش مجھ کو دو رنگی
منکر سخن و شعر میں ایہام کا ہوں میں


مطلوب دعا حق میں نہیں اپنے کسو کی
طالب لب محبوب سے دشنام کا ہوں میں


بندہ ہے خدا کا تو یقیں کر کہ بتاں کا
بندہ یہ جہاں بے زر و بے دام کا ہوں میں


ہے شیشۂ مے عینک پیری مجھے سوداؔ
نظارہ کن اب شیب کے ایام کا ہوں میں