مشورہ

مجھے یہ ڈر ہے کسی آفتاب کی گرمی
تری نظر کے ہزار آئنوں کو توڑ نہ دے
مجھے یہ وہم کسی ماہتاب کی ٹھنڈک
لہو سے گرمئ فکر و عمل نچوڑ نہ لے


تو اپنی ذات سے خود چشمۂ ادا و صدا
تجھے جہاں کی ہواؤں کے رخ سے کیا نسبت
تو اپنے آپ ہی خود انجمن ہے خود ہی چراغ
ہجوم حلقہ بگوشاں سے تجھ کو کیا نسبت
یہ راستہ نہیں وہ جس پہ تو ٹھہر جائے
یہاں سے جلد گزر عکس مہر و مہ کی طرح
یہاں پہ کوئی رکا ہے تو خار رہ کی مثال
یہاں پہ کوئی رکا ہے تو گرد رہ کی طرح


جو آستاں ہو اسے سنگ در کا غم کیسا
جو خود سفر ہو اسے رہ گزر کا غم کیسا
جو خود یقیں ہو اسے وہم انتظام سے کیا
جو خود ہی مے ہو اسے میکدے کے نام سے کیا