مشرقی پاکستان پہ ڈھلتی شام
یہ سولہ دسمبر 1971 تھا جب آخری بار مشرقی پاکستان پکارا گیا، اور پھر جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔ وہ جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی، آج اسی شہر میں بنگلہ دیش کی بنیادیں پڑ گئیں ۔ آج قرارداد لاہور پیش کرنے والے شیر بنگال کا دیس پاکستانیوں کے لیے پردیس بن گیا۔ پہلے تو دو بازوؤں کے درمیان سمندر تھا لیکن آج سرحد بھی آ رہی تھی۔ تاریخ نیا موڑ لے رہی تھی، نیا باب کھل رہا تھا۔ آہ!! !
" کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن"!
اس بات کی خبر رات گیارہ بجے دفتر میں بیٹھے نصیر ترابی کو پہنچی۔ یہ ان کے لیے خبر نہیں تھی، سانحہ تھا۔ اب جو حقیقت ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انہوں نے قلم اٹھایا اور صفحہ قرطاس پر یوں جذبات منتقل کر ڈالے:
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سبھی کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
آپ نصیر ترابی کی اصل آواز میں یہ دکھ نیچے دیے گئے لنک پر سن سکتے ہیں۔