مشیر: میں نے اس سے یہ کہا
مَیں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر اُمید کی کِرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہر ِصبح ِنو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شر پسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ ،تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محو ِخواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا
میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دُور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تو ''یقیں'' ہے یہ ''گماں''
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تُو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا