مسل کر پھینک دوں آنکھیں تو کچھ تنویر ہو پیدا
مسل کر پھینک دوں آنکھیں تو کچھ تنویر ہو پیدا
جو دل کا خون کر ڈالوں تو پھر تاثیر ہو پیدا
اگر دریا کا منہ دیکھوں تو قید نقش حیرت ہوں
جو صحرا گھیر لے تو حلقۂ زنجیر ہو پیدا
سراسر سلسلہ پتھر کا چشم نم کے گھر میں ہے
کوئی اب خواب دیکھے بھی تو کیوں تعبیر ہو پیدا
میں ان خالی مناظر کی لکیروں میں نہ الجھوں تو
خطوط جسم سے ملتی کوئی تصویر ہو پیدا
لہو میں گھل گئے جو گل دوبارہ کھل بھی سکتے ہیں
جو میں چاہوں تو سینے پر نشان تیر ہو پیدا