مسئلہ زبان اور قومی تقاضے


زیر نظرمضمون روزنامہ امروز کی یکم اور ۲ اکتوبر ۱۹۵۵کی اشاعتوں میں قسط وار شائع ہوا۔ (مرتب) پروفیسر میکس مولر نے ۱۸۸۹ء  میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے دانشوروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے تعلیم کے نظام میں ابتدائی تعلیم سمیت اب تک زبان کی سائنس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ابھی تک ہمارے بچوں کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ان کی سب سے قیمتی میراث کی قدر وافادیت کیاہے۔ ان کی زبان کیاشئے ہے۔ زبان جو ان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ زبان جو انسان کو انسان بناتی ہے، زبان جس نے انسان کو نیچرکا آقا بنایا ہے اور اس میں اپنی ذات کا شعور پیدا کیا ہے۔ پس صاحبو! کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ہم اپنی ساری زندگی گزار دیں، اور یہ جاننے کی کوشش تک نہ کریں کہ وہ کیا فضا ہے جس سے ہم اپنی بہترین ذہنی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ ہم کسی کو تعلیم یافتہ نہیں کہتے، جب تک وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس شخص کو تعلیم یافتہ نہیں کہنا چاہئے جو یہ نہ جانتا ہو کہ زبان کیا ہے اور وہ کیونکر یہاں تک پہنچی۔‘‘ علم لسانیات کی ترقی۶۵ سال کی اس مختصر مدت میں لسانیات کا علم کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ دانایان مغرب نے دنیا کی اکثر زبانوں اور بولیوں کی تاریخ مرتب کر لی۔ ان کی گرامرسے آگاہی حاصل کرلی۔ ان کے لغت بنا ڈالے، ان کے لوک گیت، ان کے بھجن اور زمزمے، ان کے قصے اور کہانیاں سب اکٹھا کر لیں۔ لفظوں کی ابتدائی شکلیں ڈھونڈ نکالیں۔ تحریر کے اولین نقوش کے معنی معلوم کر لیے۔ انسان کے منہ سے نکلنے والی آوازوں کی چھان بین کرکے صوتیات کے اصول قائم کرلیے۔ یونیورسٹیوں اورکالجوں میں علم زبان کے الگ شعبے قائم ہو گئے۔ فقط علم زبان کے نہیں بلکہ لسانیات کی مختلف شاخوں کے بھی، جہاں تعلیم کےعلاوہ مزید تحقیق و جستجو کی سہولتیں بھی فراہم کی جانے لگیں۔ علماء لسانیات اور محققین نے اپنی تصنیفات سے کتب خانوں کی الماریاں بھر دیں اور اس سارے  کام کو ایک لڑی میں پرونے کی غرض سے، اس کو منظم طورسے چلانے کی خاطر علم لسانیات کی قومی اور بین الاقوامی انجمنیں قائم ہوگئیں۔ اور ہمارے ملک میں! آج بھی وہی حالت ہے جس کا رونا پروفیسر میکس مولر نے ۶۵ سال پیشتر رویا تھا بلکہ میں تویہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ لسانیات کے میدان میں ہم یورپ کے مقابلے میں قریب قریب ڈیڑھ سوسال پیچھے ہیں کیونکہ یورپ کے علما اٹھارہویں صدی کے آخر میں بحث کیا کرتے تھے کہ زبان آسمان سے اتری ہے یا انسان کی اپنی تخلیق ہے اور فلاں زبان مقدس اور برگزیدہ ہے اور فلاں زبان گنوار اور گھٹیا ہے۔ پروفیسر میکس مولر نے جس زمانے میں زبان سے انگریزوں کی بے توجہی کی شکایت کی، اس زمانے میں تو یورپ، انگلستان اور امریکا میں علم لسانیات بہت ترقی کر چکا تھا اور پڑھے لکھے لوگوں میں زبان دانی کا شوق بہت بڑھ گیا تھا۔ خود پروفیسر میکس مولر یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے تھے اور سنسکرت کی کتابوں۔۔۔ رگ وید وغیرہ کے ترجمے چھاپتے رہتے تھے۔ ہمارے ملک میںہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ زبانوں کی تحقیق و جستجو کے سلسلے میں بزرگوں نے جو کام کئے تھے، ہم ان سے بھی بے خبر ہوتے جا رہے ہیں۔ مولوی محمد حسین آزاد، مولوی وحید الدین سلیم، ڈاکٹرمولوی عبدالحق، پنڈت دتاتریہ کیفی اور علامہ محمد شیرانی نے علم لسانیات کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ در اصل اردو میں لسانیات کے بانی یہی حضرات ہیں۔ یہ درست ہے کہ جدید تحقیق نے ان کے اکثر نظریات کو رد کر دیا ہے، لیکن اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں بلکہ ان کے عہد کا قصور ہے کہ اس وقت یہ علم اس سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ ہندوستان میں بیٹھ کر انہیں جتنی معلومات حاصل ہو سکتی تھیں اور جتنا مسالا وہ ان نامساعد حالات میں اکٹھا کر سکتے تھے، اسی کی بنیاد پر انہوں نے تحقیق و جستجو کی اور بعض نتیجوں تک پہنچے۔ لیکن کیا نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم نے اپنے آپ کو اس قابل بنایا ہے کہ لوگ ہمیں ان بزرگوں کا جانشین سمجھیں۔ آج تویہ عذر نہیں کیا جا سکتا کہ بیرونی آقا ہمیں تحقیق و جستجو سے روکتے ہیں۔ آج تو ہمارے ملک میں ہماری اپنی حکومت ہے جو چاہے تو ہمیں ہر قسم کی سہولتیں مل سکتی ہیں۔ طلبا دوسرے ملکوں میں علم لسانیات کی تعلیم حاصل کرنے جا سکتے ہیں۔ لسانیات کے عالم یہاں آسکتے ہیں۔ ان کی کتابیں آسکتی ہیں۔ مگرحالت یہ ہے کہ اب تک نہ تو کسی یونیورسٹی یا کالج میں علم لسانیات کا کوئی شعبہ قائم ہو سکا ہے اور نہ اس علم کی باقاعدہ تعلیم کا کوئی انتظام ہے۔ ضمنی طورپر لسانیات کا درس ممکن ہے دیا جاتا  ہو، مگر اس سے کیا بنتا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر بھی یہی نقشہ ہے۔ ملک میں تاریخ دانوں کی انجمن ہے۔ ڈاکٹروں کی انجمن ہے۔ ٹیچروں کی انجمن ہے۔ فلسفیوں اور معاشیات کے ماہروں کی انجمن ہے۔ مگر نہیں ہے تو لسانیات کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والوں کی۔ ملک میں ہرقسم کے رسالے نکلتے ہیں، مگر نہیں نکلتا تو لسانیات کا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگراکا دکا لوگ زبان کے سلسلے میں کوئی کام کرتے ہیں یا کام کرنا چاہیں تو نہ کوئی ان کی رہبری اور نگرانی کرنے والا ہے اور نہ کوئی صلاح ومشورہ دینے والا۔ ۲۲ برسوں پہلے کا ایک سرحدی عالملطف کی بات یہ ہے کہ یورپ میں علم لسانیات کی محرک ایک مشرقی زبان ہی تھی۔ سنسکرت۔ اورجس شخص نے دانایان مغرب کواس علم کی ابجد سکھائ وہ اسی سرزمین کا باشندہ تھا جسے اب پاکستان کہتے ہیں۔ اس عظیم انسان کا نام پاننی تھا۔ وہ چوتھی صدی قبل مسیح میں (اب سے ۲۲ سو سال پیشتر) صوبہ سرحد کے ایک گاؤں زالاتورا میں پیدا ہوا۔ روایت کے مطابق وہ مگدھ (بہار) کے راجہ نندا کا ہم عصرتھا۔ پاننی کاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سنسکرت زبان کی ایک ایسی مستند گرامر تیار کی جو آج تک حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ یورپ والوں کی سنسکرت زبان اورپاننی کی گرامر سے آگہی دراصل ایک سنگ میل ہے جہاں سے علم لسانیات کی ابتدا ہوئی۔ چنانچہ مشہور عالم پروفیسر وھٹنے لکھتا ہے کہ ’’کسی ایک واقعہ نے علم لسانیات کو آگے بڑھانے میں اتنی مدد نہیں کی جتنی مغربی علما کی سنسکرت زبان سے آگہی نے۔‘‘ میکس مولر تو یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ سنسکرت کے بغیرجدید لسانیات ممکن ہی نہ تھا اوریورپ کو اس زبان سے باقاعدہ متعارف کرایا سرولیم جیمس نے۔ انہوں نے رائل سوسائٹی آف بنگال کے خطبے میں (۱۷۸۶ء) سنسکرت زبان کی اہمیت ان لفظوں میں بیان کی، ’’سنسکرت زبان کی ابتدا خواہ کچھ ہی ہو، حیرت انگیزضرور ہے۔ وہ یونانی زبان سے زیادہ مکمل، لاطینی سے زیادہ وسیع اور دونوں سے زیادہ ثقیل ہے۔ اس کے باوجود دونوں زبانوں میں اورسنسکرت میں جہاں تک مصادر کے مخارج اور گرامر کی شکلوں کا تعلق ہے، اتنی مشابہت پائی جاتی ہے کہ اسے کسی اتفاق یا حادثے  پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ یگانگت اتنی قریبی ہے کہ ان تینوں زبانوں کی تحقیقات کے بعد ہرعالم لسانیات اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان زبانوں کا مخرج و منبع ایک ہی ہے جس کا غالباً اب وجود باقی نہیں۔‘‘ اس اہم انکشاف نے لسانیات کے عالموں کو زبان کے ارتقا کی اصل حقیقت اوران کے باہمی رشتوں کے بارے میں اپنے خیالات اورعقائد ہی بدلنے پرمجبور نہیں کیا بلکہ ان کے زاویہ نگاہ اور طریقہ کار میں بھی انقلاب آگیا۔ مگر میں یہ کیا کفر بک رہا ہوں۔ ایک ایسی زبان کا ذکر کررہا ہوں، جو سر تا پا ’’ہندوانی‘‘ ہے اور اس زمانے میں جب سنسکرت تو سنسکرت بنگالی زبان پر بھی ’’ہندوانی‘‘ ہونے کا فتویٰ لگ رہا ہے۔ حالانکہ وہ اردو کی سگی بہن ہے۔ اس کے خون و پوست کا ایک حصہ ہے اور اس کی پرورش خود بنگال کے مسلمان بادشاہوں نے کی۔ زبان، انسانی تہذیب کا نچوڑہےلسانیات کی طرف سے اپنی غفلت اوربے توجہی کا ذکرکرتے کرتےمیں کہاں پہنچ گیا۔ مگرسوال یہ ہے کہ ہم یہ علم کیوں سیکھیں۔ اس بے خبری کے باعث ہمارے کون سے کام بند ہیں۔ میرا مقصد علم لسانیات کی خوبیاں گنوانا نہیں اورنہ میں علم برائے علم کا زیادہ قائل ہوں۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ علم لسانیات ہماری ایک اہم قومی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جسے علم لسانیات کی اتنی ضرورت ہو جتنی پاکستان کو ہے۔ علم لسانیات کے عام نہ ہونے کے باعث اورزبانوں کے بارے میں غیر تاریخی، غیر سائنسی اور مضرت رساں نقطہ نظر کے رواج پا جانے کے باعث ہماری تہذیبی ترقی رکی ہوئی ہے۔ نہیں بلکہ ہماری تہذیب روبہ زوال ہے۔ ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔  ہیگل نے کہا تھا کہ ’’زبان انسانی تہذیب کا نچوڑ ہے، اس کا عطر ہے۔‘‘ زبان سے غفلت برت کرہم تہذیب کے ان عناصر ترکیبی سے بھی غفلت برت رہے ہیں جن سے مل کریہ عطر بنتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ میرا خیال ہے کہ کسی ملک میں زبان کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اورنازک نہیں جتنا ہمارے ملک میں ہے۔ کسی ملک میں یہ مسئلہ اس شدت سے سیاسی مسئلہ نہیں بنا ہے جس شدت سے پاکستان میں۔ یہاں زبان کے مسئلے پر گولیاں چلتی ہیں۔ زبان کے ہزاروں شیدائی جیل جاتے ہیں۔ یہاں خودغرض عناصر لوگوں کے جذبات سے زبان کا سہارا لے کر کھیلتے ہیں اور اس مقدس ترین میراث کوبساط سیاست پرشطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ زبانوں کی پالیاں لگتی ہیں۔ ایک زبان کودوسری زبان سے لڑایاجاتاہے۔ بنگالی کوہندوانی زبان کہہ کر مذہبی تعصب پھیلایا جاتا ہے۔ پشتو کو یہودیوں کی زبان کہہ کر اس سے نفرت دلائی جاتی ہے۔ پنجابی کو گنواروں کی زبان کہا جاتا ہے۔ اردو کوغیرملکی قرار دیا جاتا ہے۔ جب صورت حال یہ ہوتو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی ملک کے ریاستی بقا اور یکجہتی کے لئے علم لسانیات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہم کو ہے۔ اگرہم نے جلد اس کمی کو پورا نہ کیا تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے  گا۔ کسی زبان کا مذاق نہ اڑائیےلسانیات کے مشہور جرمن عالم کارل ووسلز نے کہا تھا کہ جوشخص اپنی زبان سے سچی محبت کرتا ہے، وہ دوسرے زبان سے کبھی نفرت نہیں کر سکتا، کیونکہ اسے جس طرح اپنی زبان پیاری ہے، اسی طرح دوسرے کوبھی اپنی زبان پیاری ہے مگر اس منطق تک پہنچنے کے لئے فہم و ادراک اورعلم درکار ہے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی زبان سے حقیقی محبت تو کرتے ہیں مگر دوسروں کی زبان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک پنجابی دوست نے مجھے بتایا کہ جب وہ اردو میں بات کرتے ہیں تو ان کے حلق اور جبڑوں میں درد ہونے لگتا ہے اور اردوتقریر سنتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا کان کے پاس قینچی چل رہی ہے جس کے ایک پھل سے ق کی آواز نکلتی ہے اور دوسرے سے ش کی۔ اردوداں حضرات پنجابی زبان کو ڈھگوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اسے بولنا یا سمجھنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں اورپشتو توخیر لٹھ مار زبان ہے ہی (ان حضرات کی نظر میں) اور بنگالی زبان میں رس گلے کی طرح ہر آواز گول گول ہوتی ہے۔ خدا کی پناہ ان لسانی نفرتوں سے! مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اور اگر ہمیں پاکستان کی بقا اور ترقی منظور ہے تواس زہریلے سیلاب کو روکنا ہوگا۔ لسانی تعصباتظاہر ہے کہ لسانی نفرت کی اس فضا میں ایک دوسرے کی زبان سیکھنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہمارا رویہ دوسری زبانوں کے بارے میں آج بھی وہی ہے جو پرانی قوموں کا اپنی ہمسایہ زبانوں کے بارے میں تھا۔ آریائی برہمن سنسکرت کو دیوتاؤں کی زبان سمجھتے تھے اور ملچھوں کو اسے سننے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اگر غلطی سے کوئی شودرسنسکرت کا کوئی اشلوک سن لیتا تھا تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔ یونانی اپنی زبان کو آسمانی زبان سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی زبان سیکھنا اپنی ہتک۔ عربوں کو اپنی زبان پر اتنا ناز تھا کہ وہ دوسروں کوعجم یعنی گونگا کہتے تھے۔ یورپ والوں نے مدت ہوئی اس تعصب اور تنگ خیالی سے نجات حاصل کرلی۔ آج وہاں کے پڑھے لکھے لوگ اس بات پرفخر کرتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں زبانیں آتی ہیں۔ آج وہاں ایسے لوگ کثرت سے ملیں گے جو کم سے کم تین چار زبانیں ضرور جانتے ہوں۔ فقط یورپ ہی کی زبانیں نہیں بلکہ ایشیا اور افریقہ کی زبانیں بھی۔ اس کے برعکس یہاں کیا حالت ہے۔ یوپی اور پنجاب کے لوگ سات آٹھ سال سے مشرقی بنگال میں مقیم ہیں۔ کچھ مستقل آباد ہوگئے ہیں۔ کچھ نوکری یا تجارت کے سلسلے میں وہاں گئے ہوئے ہیں۔ مگران سے پوچھو کیوں جناب آپ کو بنگالی زبان آتی ہے۔ تو شرمانے کے بجائے بڑے فخر سے کہیں گے۔ جی نہیں۔ وہ بھی کوئی زبان ہے جسے سیکھا جائے۔ یوپی کے لاکھوں مہاجر پنجاب اور سندھ میں آباد ہیں مگرپنجابی یا سندھی سیکھنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ البتہ سندھیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اردو سیکھیں۔ یہی حال سرحد میں مقیم پنجابیوں اور یوپی کے لوگوں کا ہے کہ وہ پشتو کے نام سے کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔ اردوکے نادان دوستجہاں تک اردو کا تعلق ہے اس کے نادان دوستوں نے یہاں کے عام لوگوں کو اس سے متنفر کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس زبان میں دوسروں کے دلوں میں اترجانے کی اتنی صلاحیت ہو، اور جس کو لوگ اس پیار سے اپناتے ہوں، گویا وہ انہیں کے گھرمیں پلی بڑھی تھی، اس زبان کواس کے نادان دوستوں کے باعث قدم قدم پر ذلیل و خوار ہونا پڑ رہا ہے۔  ہندوستان میں اردوکا جھگرا ہندی والوں سے تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہندی کے حامیوں کی زیادتی ہے۔ ہندی والے ہمیں مورد الزام گردانتے تھے۔ نزاعی بات تھی۔ اس کا فیصلہ کون کرتا۔ مگراب اردو یہاں آئی ہے تو یہاں اس کے دوست نما دشمنوں کے کارن اس کا جھگڑا کبھی بنگالی سے ہے، کبھی پشتو سے، کبھی سندھی سے، کبھی بلوچی سے اور اردو کے یہ نادان دوست عجیب و غریب ذہنیتیں رکھتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں جب پاکستان کی دستورساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو کئی بنگالی ممبروں نے اپنی تقریر کے دوران میں اردوکے شعرپڑھے۔ اردو کے محاورے استعمال کئے۔ بس پھر کیاتھا۔ یاروں کوایک کھلونا ہاتھ آگیا۔ اخباروں میں اداریے لکھے گئے کہ دیکھا آپ نے اردو زبان کی عظمت اورمقبولیت کو، اور بنگالی زبان کے دیوالیہ پن کو، کہ وہ لوگ بھی جو اردو کی مخالفت کرتے ہیں اور بنگالی کو ملک کی سرکاری زبان بنانا چاہتے ہیں، غالب اوراقبال کے شعر پڑھنے پر مجبورہیں۔  گویا اگرمیں چاہتا ہوں کہ اردو ملک کی سرکاری زبان ہو تو مجھے نہ انگریزی میں شعر پڑھنے کا حق ہے، نہ پنجابی میں اورنہ بنگالی میں۔ کیا منطق ہے! بجائے اس کے کہ ہم بنگالی ممبروں کے ممنون ہوتے کہ وہ اردو نوازی کرتے ہیں اور اردومیں شعر پڑھتے ہیں، ہم ان پرطعنہ زنی کرتے ہیں اور ان کی اردو دوستی کو بنگالی زبان کی تہی مایگی پرمحمول کرتے ہیں۔ گویا بنگالی میں تو شعرکہے ہی نہیں جا سکتے۔ بجائے اس کے کہ ہم بنگالی زبان یا پنجابی زبان نہ جاننے پرشرمندہ ہوں اور اس کمی کو جلد سے جلد دور کرنے کی کوشش کریں، ہم الٹے ان لوگوں کو طعنے دیتے ہیں جو ہماری زبان سیکھتے ہیں اور بسا اوقات ہم سے بہتر انداز میں اسے برتتے بھی ہیں۔ مشکل اردوایک اور بھی خطرناک رجحان ہے جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ رجحان مشکل اردو کا ہے۔ ہندوستان میں سنسکرت آمیز ہندی کا رواج چل نکلا ہے، چنانچہ سیدھے سادے عام فہم ہندی لفظوں کی جگہ متروک اور بھونڈے سنسکرت آمیز الفاظ کو جان بوجھ کر لوگوں کے سر پر تھوپا جا رہا ہے۔ وہاں کا معقول اور سنجیدہ طبقہ سنسکرت الفاظ کے اس غلط استعمال کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہاں کے اردو اخباروں میں بھی گاہے گاہے ہندوستان کے دانشوروں کی اس طفلانہ مگر نقصان دہ حرکت پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں اور یہ اعتراض درست ہیں، مگر ہمیں ٹھنڈے دل سے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دیکھنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں بھی آسان اردو کی جگہ آہستہ آہستہ فارسی اور عربی آمیز اردو کا رواج بڑھ رہا ہے۔ جن خیالات کو ادا کرنے کے لئے ہماری زبان میں ہندی لفظ پہلے سے موجود تھے، ان کوترک کرکے موٹے موٹے عربی کے الفاظ بلاوجہ استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایک اخبار میں لو کی جگہ ضربت الشمس کی ترکیب پڑھ کر میں حیران ہو گیا۔ (جو شاید سن اسٹروک کا لفظی ترجمہ ہے) ہمارے بعض نوجوان دانشوروں میں بھی یہ وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ وہ اس بھول میں ہیں کہ بڑے بڑے عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرنے سے لوگ ان کی قابلیت سے مرعوب ہو جائیں گے۔ ممکن ہے عام پڑھنے والا مرعوب ہو جائے لیکن متاثر تو نہیں ہو سکتا، ان کے خیالات سے لطف تو نہیں لے سکتا، ان کو قبول تو نہیں کر سکتا۔ زبان کا مقصد اپنے خیالات، احساسات، جذبات اور تجربات کو دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے، ایسی صورت میں یہ ضروری ہے کہ بولنے والا ہو یا لکھنے والا، بولتے اور لکھتے وقت اپنے سننے اور پڑھنے والوں کی ذہنی سطح اور علمی استطاعت کا پورا پورا خیال رکھے۔ ہمارے اخبار، رسالے اور ریڈیو والے اس آسان مگر بنیادی بات کو بھول جاتے ہیں اور اپنی عربی دانی اور فارسی دانی سے ہمیں مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی بڑی اکثریت کو پوری طرح نہ تو عربی آتی ہے نہ فارسی، اس لئے ان کی تقریروں اور تحریروں میں بڑی بڑی مضحکہ خیز غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ انسان کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ سیدھی بات کرے، کلام میں پیچ نہ ڈالے اور زبان ایسی استعمال کرے جسے زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔ ہمارے پرانے ادیبوں اور زبان کے عالموں نے ہمیشہ آسان زبان لکھنے پر زور دیا اور خود بھی آسان زبان لکھی۔ میر امن دہلوی، خواجہ حسن نظامی، رتن ناتھ سرشار، ڈپٹی نذیر احمد، پریم چند اور مرزا سجاد حسین کو چھوڑیے کہ افسانوں اور ناولوں کی زبان عام طور سے آسان ہوتی ہے۔ سر سید احمد خاں، محمد حسین آزاد، مولانا حالی اور ڈاکٹر مولوی عبد الحق کی تحریریں دیکھئے۔ کتنی سلجھی ہوئی اور آسان زبان ہے ان لوگوں کی۔ کتنا رس ہے، کتنی تازگی ہے اور دلکشی ہے ان کی تحریروں میں۔ اگر مشکل اردو لکھنے اور بولنے کے رجحان کی روک تھام نہ کی گئی تو اردو زبان کا بھی عنقریب وہی حشر ہوگا جو ہندی کے نادان دوستوں کے ہاتھوں ہندی کا ہو رہا ہے۔ اگر عربی اور فارسی کے نامانوس الفاظ اور بھونڈی ترکیبوں کا استعمال یوں ہی بڑھتا رہا تو غالب کا یہ شعر اردو پر حرف بہ حرف صادق آجائے گا، آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائےمدعا عنقا ہے اپنی عالم تقریر کا