مرثیے کی معنویت
آج کے زمانے میں مرثیے کی معنویت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اب سے کوئی سواسو برس پہلے، جب انیسؔ (۱۸۰۲ء تا ۱۸۷۴ء) اور دبیرؔ (۱۸۰۳ء تا ۱۸۷۵ء) موجود تھے، تب مرثیے کی معنویت کیا تھی؟ جواب میں کہا جاسکتا تھا کہ اس وقت مرثیے کی معنویتیں کم سے کم دو تھیں۔ ایک تو یہ کہ مرثیہ ایک نسبتاً طویل، مذہبی بیانہ نظم تھا، جس کا لکھنا، پڑھنا، سننا اور سنانا سب کار ثواب تھے اور دوسری یہ کہ زبان وبیان، محاورہ، اور نک سک سے درست ہونے کے باعث مرثیے کی ادبی قدر وقیمت بھی تھی اور بعض حالات میں اسے دوسری بیانیہ اصناف کے لیے مثال اور نمونے یعنی paradigm کے طورپر بھی استعمال کرسکتے تھے۔
اس جواب پر کہا جاسکتا ہے کہ مرثیے کی مذہبی حیثیت سے ہمیں کوئی بحث نہیں کیونکہ اس کی ادبی حیثیت اس کے مذہبی پہلو کی لازماً تابع نہیں ہے۔ رہا سوال مرثیے کی ان خوبیوں کا جن کا تعلق زبان وبیان وغیرہ سے ہے، تو اس زمانے میں زبان کے معیار بدل گئے ہیں۔ وہ چیزیں جنھیں انیسؔ ودبیرؔ کے وقت میں زبان کی خوبی کہا جاتاتھا، ممکن ہے آج انھیں زبان کا عیب تصور کیا جائے، لہٰذا انیسؔ ودیگرؔ کے دنوں میں مرثیے کی معنویت کا جو تعین کیا گیا، وہ آج ہمارے لیے بے کار ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ ممکن ہے کسی صنف یا کسی ہیئت میں کوئی خاص کارنامہ یا کارنامے ایسے ہوں جن میں اس صنف یا ہیئت کو ایسی ادبی بلندی پر پہنچا دیا گیا ہو کہ آئندہ آنے والوں کے لیے جائے قیام ہی نہ رہے۔ اگر مثلاً میر انیسؔ نے مسدس کی ہیئت میں مرثیے کو اس عروج پر پہنچا دیا جس کے آگے کوئی منظر ہی نہ رہ گیا، تو اس بات میں کیا تعجب کہ مسدس کی ہیئت میں مرثیہ اب اپنی معنویت کھو بیٹھا ہے؟ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسدس کی ہیئت والی نظم ہی اب اپنے امکانات سے فارغ ہو چکی ہے۔
اقبالؔ نے طرز انیسؔ کی کم وبیش پیروی کرتے ہوئے ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ لکھیں (۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۳ء) اقبال کی ان نظموں سے کچھ دہائی پہلے، لیکن انیسؔ و دبیرؔ کے کچھ ہی بعد (۱۸۷۹ء)، حالیؔ نے ’’مسدس‘‘ لکھا، مگر یہ خیال رکھا کہ میر انیسؔ کے انداز سے محترز رہیں۔ نظمیں تینوں ہی مقبول ہوئیں، لیکن ان کی مقبولیت کے اسباب ادبی سے زیادہ مذہبی، سیاسی اور تاریخی تھے۔ ’’جواب شکوہ‘‘ کے تقریباً فوراً بعد صفی لکھنوی نے مسدس کی ہیئت میں ’’مرثیۂ حالی‘‘ لکھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی نظم ایسی نہ ثابت ہوئی کہ مرثیے یا مسدس کے لکھنے والوں کے لیے کسی طرح کی نئی راہ کا اشارہ کر سکے۔
انگریزی ادب میں ایسی ہی مثال ٹی ایس الیٹ کی ہے، جس نے اپنی نظم The Waste Land کے اولین مسودے میں ہیروئی ابیات (heroic couplet) کی طرز میں ایک طویل ٹکڑا رکھا تھا۔ لیکن از را پاؤنڈ Ezra Pound کے سخت اصرار پر اس نے اسے پورا کا پورا حذف کر دیا۔ پاؤنڈ نے الیٹ سے کہا کہ میاں وہ طرز تو الیگزنڈر پوپ (Alexander Pope) (۱۶۸۸ء۔ ۱۷۴۴ء) پر ختم ہو گیا، اب اس میدان میں ہاتھ پیر مارنے سے تمھیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔
تو کیا اس کا مطلب ہم یہ نکالیں کہ اگر کوئی طرز کسی بنا پر منسوخ یا نامقبول ہو جائے تو پھر اس طرز یا صنف کی روایت میں جو کچھ ہے، وہ سب اپنی معنویت کھو دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا کہنا انصاف اور حقیقت دونوں سے بعید ہوگا، لہٰذا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ازمنۂ گزشتہ کے اصناف اور ہیئتوں کے ساتھ ہم کیا معاملہ کریں؟ اور اس سے بھی اہم تر سوال یہ کہ معاملہ بالآخر جیسا بھی ہو لیکن وہ ہو کس طرح؟ خود پوپ کے ساتھ یہی مشکل آئی تھی کہ ایک زمانے میں اس کی قدر شکنی اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ میتھیو آرنلڈ (Mathew Arnold) نے برملا دعویٰ کیا کہ ڈرائڈن (Dryden) اور پوپ (Pope) ہمارے شعر کے نہیں، بلکہ ہماری نثر کے شاہ کار ہیں! انگریزی تنقید کو ڈرائڈن اور پوپ اور ان کی طرح کے دیگر شعرا کے ساتھ منصفانہ معاملہ کرنے اور ان کی تعیین قدر کے لیے مناسب تنقیدی تصورات وضع کرنے یا دوبارہ دریافت کرنے میں بہت وقت لگا۔
خیر، انگریزی تنقید اور ہیروئی ابیات میں طنزیہ شعر کہنے والوں کی ایک خاص مشکل تھی اور وہ یہ کہ رومانی افکار کے وسیع اثر اور نفوذ کی بنا پر انیسویں اور اوائل بیسویں صدی کی انگریزی تنقید میں یہ غلط خیال عام ہو گیا تھا کہ شاعری میں ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ (high seriousness) بہت ضروری ہے (یہ فقرہ آرنلڈ کا ہے) اور طنزومزاح میں ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ کی گنجائش نہیں۔ اردو میں تو یہ معاملہ نہ تھا۔ یہاں کلاسیکی شاعری کی روایت میں طنز، مزاح، سب شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ مشکل آ پڑی تھی کہ محمد حسین آزاد نے ہمیں سکھایا تھا کہ شاعری اور اس کی اصناف بدلتی رہتی ہیں اور پرانی اصناف اگر اپنا مسلسل جواز نہ پیش کر سکیں تو ان کو باقی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہمارے یہاں یہ سوال اکثر نظرانداز کر دیا گیا کہ اگر کوئی طرز یا صنف آج کسی بنا پر نامقبول ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس طرز یا صنف میں جو گزشتہ اکتسابات ہوئے، ان پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے؟ ابھی حال ہی میں انگلستان کا موجودہ ملک الشعرا ٹیڈ ہیوز (Ted Hughes) جو ایک اعلیٰ درجے کا جدید شاعر ہے، اس نے پہلی صدی کے مشہور لاطینی شاعر اَوڈ (Ovid) کی کتاب (Metamorphosis) کے منتخب قصوں کا ترجمہ منظوم انگریزی میں کیا ہے اور اس کا نام Tales from Ovid رکھا ہے۔ اس کے دیباچے میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ ترجمے اس لیے کیے ہیں کہ میرے پڑھنے والے اپنی قدیم یورپی ادبی روایت سے بے بہرہ نہ رہیں اور ٹھیک اسی زمانے میں سترہویں صدی کے فرانسیسی شاعر Jean de la Fontaine کی منظوم حکایتوں کا (جو چڑیوں، جانوروں، درختوں، انسانوں وغیرہ کے بارے میں ہیں اور جن کا مآخذ ایسپ یونانی کی حکایات ہیں) انگریزی میں نیا ترجمہ ہوا ہے، اور اس پر خوب گفتگو ہو رہی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اوڈ (Ovid) اور ژاں دالا فونتین Jean de la Fontaine)) دونوں ہی تہذیب اور ادبی اسلوب دونوں کے اعتبار سے جدید مغربی انسان سے بہت دور ہیں۔ لیکن وہاں ان تراجم پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ ایسی ازکار رفتہ اصناف اور ہیئتوں کو دوبارہ دنیا کے سامنے لانے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی اہلِ مغرب، جن سے ہم نے اصناف کا نظریہ بڑی حد تک حاصل کیا ہے، یہ کہتے نظر نہیں آ رہے ہیں کہ قدیم اصناف یا ان اصناف میں لکھے ہوئے ادب کو قبول کرنے سے پہلے ان کی معنویت پر گفتگو ضروری ہے۔
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ اگر میر انیسؔ وغیرہ اہل کمال کی برکت سے مسدس کی ہیئت میں مرثیے کی صنف ایسی بلندیوں پر پہنچ گئی جو دوسروں کے لیے ناقابل تسخیر ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم میر انیسؔ وغیرہ کے مرثیے ہی کی مسلسل زندگی کو مشکوک قرار دیں اور کہیں کہ اب چونکہ مسدس کی ہیئت میں قابل ذکر مرثیہ، بلکہ کسی بھی ہیئت میں قابل ذکر مرثیہ نہیں لکھا جا رہا ہے، لہٰذا ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ مرثیے کے معنویت آج کیا ہے؟ اگر اس سوال کو درست تسلیم کیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکےگا کہ چونکہ میروغالبؔ نے غزل کو منتہائے کمال تک پہنچا دیا، لہٰذا آج غزل کی معنویت بھی مشتبہ ہو چکی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ غزل تو آج بھی بہرحال ہماری مقبول ترین صنف ہے، لہٰذا اس کی معنویت معرضِ خطر میں نہیں، جب کہ مرثیے کا معاملہ یہ ہے کہ اچھے مرثیے آج نہیں لکھے جا رہے ہیں اور یوں بھی مرثیہ بہت کم لکھا جا رہا ہے۔
یہ صورتِ حال موجود تو یقینا ًہے، لیکن اس سے کسی صنف یا طرز کے مسلسل وجود یا اس کی معنویت پر کوئی ضرب نہیں پڑتی۔ یہ بات ضرور ہے کہ گزشتہ صدی میں ہمارا ادبی معاشرہ بہت کچھ بدلا ہے۔ یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اس پچھلی صدی میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے ان تمام تبدیلیوں سے زیادہ ہیں جو اس سے پہلے ہزار برس میں رونما ہوئی تھیں۔ ان گہری، بنیادی اور وسیع تبدیلیوں کی بنا پر ہم اپنی پرانی چیزوں کو تعریفی نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں کا مطلب ہم نے یہ نکالا ہے کہ چیزیں جب بدل جائیں تو ان کا پرانا روپ یا ان چیزوں کی پرانی بنیاد بھی حافظے سے ترک ہو جانا چاہئے۔ ہم نے بزعم خود یہ خیال مغرب سے حاصل کیا ہے، لیکن وہاں عالم یہ ہے کہ فلپ لارکن (Phillip Larkin) جیسے شاعر پر داد کے ڈونگرے اس لیے برس رہے ہیں کہ اس نے قدیم ہیئتوں کو برتنے میں خاص ملکہ حاصل کر لیا تھا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کسی قدیم (بلکہ قدیم ہی کیوں، جدید بھی) صنف کی معنویت کے بارے میں گفتگو کرنے میں کئی طرح کے خطرے اور مسائل ہیں، اوپر جو بحث ہوئی، اس سے ذرا ہٹ کر بھی دیکھیں تو بعض نئے مسائل پیداہوتے ہیں۔ مثلاً اس معاملے کو نظری اعتبار سے دیکھیں تو پہلا مسئلہ یہ بنتا ہے کہ کسی صنف کی معنویت پر گفتگو ہو ہی کیوں؟ کیا کسی ادبی تہذیب کی طرف سے یہ دلیل کسی صنف کے جواز کے لیے کافی نہیں کہ ہم نے اس صنف کو ایجاد کیا، یا کہیں باہر سے لےکر قبول کیا، یا اسے باہر سے لاکر اپنے رنگ میں رنگ لیا یا وہ صنف جو رنگ باہر سے لے کر آئی تھی، اس نے ہمارے پہلے سے رائج دیگر اصناف پر اپنا اثر ڈالا، اور اس طرح دونوں اصناف یعنی دیسی اور بدیسی کو نئے انداز اور نئے امکانات سے آشنا کیا۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ اصناف کو اپنے آپ اپنا جواز قرار دیا جائے۔ اگر کوئی صنف کسی ادب میں مقبول ہے یا تھی، تو پھر اسے اپنے وجود اور بقا کے لیے کسی اور جوازیا دلیل کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے۔ انسانوں کے تمام کاموں کی طرح ادب کے کاموں میں بھی منطق کا وہ اصول کام کرتا ہے جسے ’’آکم کا اُسترا‘‘ (Occam’s Razor) کہا جاتا ہے۔ مغربی فلسفیوں میں ولیم آف آکم (William of Occam) (یا بقول بعض (Okham نے چودھویں صدی (۱۲۸۵ء۔ ۱۳۴۹ء) میں سب سے پہلے یہ اصول وضع کیا تھا کہ ’’جو کام، کم سے ہو سکتا ہے، اسے زیادہ سے مت کرو۔‘‘ یعنی کسی قضیے کو حل کرنے، کسی بات کو ثابت کرنے، کسی چیز کو بنانے وغیرہ کے لیے اتنے ہی قدم اٹھاؤ، اتنے ہی مدارج طے کرو، جتنے کہ ناگزیر ہوں۔ یعنی ہاتھ گھما کر ناک نہ پکڑو، بلکہ سیدھے سیدھے ناک پر ہاتھ ڈالو۔ کسی صورت حال کو غیرضروری طور پر پیچیدہ نہ بناؤ۔
لہٰذا Entities should not be multiplied need lessly ولیم آف آکم کے اس اصول کی سچائی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ انسان کو ’’کام چور جانور‘‘ یا labour saving animal کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا ہی کام کرتا ہے جتنا کرنے کے لیے وہ مجبور ہو۔ کوئی شخص خوشی خوشی فالتو محنت نہیں کرتا۔ اس اصول کو اصناف ادب پر منطبق کریں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چونکہ اصناف کو ایجاد یا اختیار کرنا محنت طلب کام ہے اور اکثر تو یہ ایک اکیلے آدمی کے بس کا بھی نہیں، لہٰذا کسی ادبی معاشرے میں وہی اصناف وجود میں آتی ہیں یا اختیار کی جاتی ہیں جن کی واقعی ضرورت ہوتی ہے اور جن کے بغیر کام نہ چل سکنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ اگر کسی ادب میں کوئی صنف موجود ہے، تو اس کا ہونا ہی اس کا جواز ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ادب ایسی کارگزاری بھی ہے جس کے ساتھ رواج عام، فیشن، شہرت یا مقبولیت کے اتار چڑھاؤ، کسی بااثر شخص کی ذاتی پسند ناپسند کی بنا پر کسی طرز یا صنف کی شہرت یا عدم شہرت وغیرہ کے بھی معاملات لگے ہوتے ہیں۔ کوئی صنف آج مقبول ہے تو کل وہ معتوب یا گم نام بھی ہو سکتی ہے، مثلاً حالی، کلیم الدین احمد، عندلیب شادانی اور ترقی پسند نظریہ سازوں کی کوششوں نے غزل کی مقبولیت میں ایک حد تک کمی پیدا کی اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حالی کے زیراثر عشقیہ معاملات کو غزل میں ایک عرصہ تک جگہ بمشکل ہی مل پاتی تھی۔ پھر یہ بھی ہے کہ غلط یا صحیح، بعض نسلیں یا بعض ادبی ادوار کسی خاص طرز کو اپنا مخصوص طرز بنا لیتے ہیں اور بعد میں ان کے رد عمل کے طورپر وہ طرز بالکل منسوخ بلکہ مردود ہو جاتا ہے۔
ملٹن کا انتقال ۱۶۷۴ء میں ہوا اور ڈرائڈن کا ۱۷۰۰ء میں۔ لیکن ملٹن کا آخری زمانہ آتے آتے اس کی محبوب صنف یعنی نظم معرا (Blank Verse) زمانے کے فیشن کے اس قدر خلاف جا پڑی تھی کہ ڈرائڈن نے ملٹن کے سامنے تجویز، بلکہ درخواست رکھی کہ مجھے اجازت ہو تو میں آپ کی نظم Paradise Lost کو اس زمانے کے فیشن کے مطابق heroic opera کی صنف میں ڈال دوں اور یہ آپرا لکھا جائےگا rhyming couplet یعنی ایک طرح کی مثنوی کی ہیئت میں (جو اس زمانے کی مقبول ترین ہیئت تھی) اور بے چارہ ملٹن راضی بھی ہو گیا۔ ہاں اس نے ڈرائڈن سے یہ ضرور کہا کہ صاحب، میرے کچھ مصرعے تو شاید اس قدر ’’فرسودہ طرز کے اور بھونڈے (old۔ fashioned and awkward) ہوں کہ اغلباً آپ بھی انھیں سدھارنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
لطف یا ادبی فیشن کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی ملٹن نے اسی Paradise Lost کی تمہید میں لکھا تھا کہ ’’مقفیٰ ہونا کسی اچھی نظم یا منظومیے کے لیے قطعاً ضروری نہیں، خاص کر طویل تحریروں میں اور مقفیٰ ہونے کی پخ تو ایک غیرمہذب عہد کی ایجاد ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ پست اور لچر مضامین اور لنگڑے اوزان کی تلافی کر لی جائے۔‘‘
اب یہ اور بات ہے کہ ملٹن کا رزمیہ اب بھی پڑھا جاتا ہے اور ڈرائڈن کے مقفی، مثنوی نما آپیرا کے بارے میں ادب کے کچھ طالب علم ہی جانتے ہیں۔ بہرحال تقریباً ۱۶۲۵ء سے کوئی ۱۷۹۰ء تک انگریزی شاعری میں مثنوی نما مقفیٰ نظم یعنی heroic couplet کا بول بالا رہا اور انیسویں صدی میں اس کا بھاؤ اتنا گر گیا کہ اس زمانے کے عظیم ماہر عروض اور نقاد جارج سینٹس بری (George Saintsbury) نے لکھا کہ اٹھارویں صدی heroic couplet کے جور (tyranny) کی دی تھی، اور اگر ہم ملٹن کی معرا نظم کا ایک ٹکڑا اور پوپ (Alexander Pope) جیسے heroic couplet کے ماہر کا ایک اقتباس پڑھیں تو ہمیں اول الذکر کے یہاں بے حد تنوع اور موخر الذکر یعنی پوپ کے یہاں زبردست یک رنگی (monotony) محسوس ہوگی۔
پھر یہ بھی ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بعض انگریزی شعرا نے ہیروائی ابیات کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش اس طرح کی نہیں جیسی آج ہم اردو میں مسدس کی ہیئت میں مرثیے کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ محض رسماً بعض مرثیہ گو شعرا نے اسے اپنی رثائی تخلیقات کے لیے استعمال کیا۔ لیکن وہ لوگ اس میں کوئی نئی جان نہ ڈال سکے۔ مرثیے کا معاملہ دورخا ہے۔ ایک طرف تو اس کے ساتھ مسدس کی ہیئت وابستہ ہے اور دوسری طرف مرثیہ کا وہ تصور جو انیسؔ ودبیرؔ کے ہاتھوں مستقل اور قائم ہوا، لہٰذا ایسے مراثی جن میں یہ دونوں شرائط نہ پوری ہوتی ہوں، مرثیے کے بارے میں ہماری توقعات پوری نہیں کرتے اور مصیبت یہ ہے کہ زمانۂ حال کے بہترین مرثیہ بھی انیسؔ، دبیرؔ، مونسؔ، نفیسؔ اور عشقؔ وغیرہ کے رتبے کو دور سے چھوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے۔
عام قاری (یا سامع) اس بات کو محسوس کرتا ہے، لیکن اس کا منطقی تجزیہ اور محاسبہ نہیں کر سکتا۔ بس وہ یہی فرض کر لیتا ہے کہ چونکہ اعلیٰ درجے کے مرثیوں کے لکھنے والے اب نہیں رہے، اس لیے مرثیے کا زمانہ بھی ختم ہو گیا ہے، اب مرثیے کی کوئی مذہبی اہمیت ہو تو ہو لیکن ادب کے میدان میں اس کی معنویت محض تاریخی ہے۔ مرثیے کے بڑے شعرا کو ہم اس طرح اپنا معاصر فرض کرکے نہیں پڑھ سکتے، جس طرح ہم غزل کے اکثر بڑے شعرا کو فرض کر سکتے اور درحقیقت فرض کرتے اور قبول کرتے بھی ہیں۔
اس صورت حال کی وجہیں ادبی بھی ہیں اور تاریخی بھی۔ سب سے سامنے کی تاریخی وجہ تو یہ ہے کہ مرثیے کی مذہبی اہمیت نے اس کی ادبی اہمیت کو اکثر دبا لیا ہے۔ مرثیے کے پہلے جدید نقاد حالی نے مرثیے کے موضوع اور اس میں بیان کیے جانے والے واقعات کا ذکر جس عقیدت اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ کیا ہے، وہ لائق تعریف تو ہے، لیکن لائق تقلید نہیں۔ حالی کی عقیدت مندی نے مرثیے کی ادبی حیثیت کو مشکوک نہیں تو کم زور یقینا کر دیا۔ حالی کے برخلاف شبلی نے یہ بات بڑی وضاحت سے کہی کہ مرثیہ اپنی ادبیت کے باعث سنجیدہ تنقیدی مطالعے کا تقاضا کرتا ہے اور بالخصوص میر انیسؔ کے ’’کلام میں شاعری کے جس قدر اوصاف پائے جاتے ہیں اور کسی کے کلام میں نہیں پائے جاتے۔‘‘
شبلی کی نظر میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں مرثیے میں یا کم سے کم میر انیسؔ کے مرثیے میں موجود تھیں۔ ’’موازنہ‘‘ کے پہلے ہی صفحے پر انھوں نے لکھا کہ ’’میر انیسؔ کا کلام شاعری کے تمام اصناف کا بہتر سے بہتر مجموعہ ہے۔‘‘ اگلے صفحے پر انھوں نے ان باتوں کا ذکر کیا جن سے ان کے خیال میں اچھی شاعری عبارت ہے۔ پھر انھوں نے لکھا کہ ’’میر انیسؔ کی شاعری کو اسی معیار سے جانچنا چاہیے جس کا مختصراً بیان ہوا۔ جس شخص کو یہ معیار تسلیم نہ ہو، اس کے سامنے میر انیسؔ کی نسبت کمال شاعری کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اصولی طور پر تو یہ بات نہایت عمدہ اور درست تھی لیکن شبلی نے اچھی شاعری کی جو تعریف کی اس میں انھوں نے اپنے دور کے تعصبات کو پوری پوری راہ دی۔ اس طرح ان کا نظریۂ شعر بعض ایسی باتوں پر بھی قائم ہوا جو مرثیے کی تنقید کے لیے چنداں اہم نہ تھیں مگر خود مرثیے کے طالب علموں کو شبلی کا یہ انداز پسند نہ آیا کہ مرثیے کی تنقید خالص ادبی بنیادوں پر کی جائے۔
اگرچہ شبلی نے مرثیے کے اہم کرداروں (جنھیں انھوں نے ’’مرثیے کے ہیرو‘‘ کہا) کی ایک فہرست اپنی کتاب میں دے دی تھی، لیکن اس کی وجہیں انھوں نے دو بیان کیں۔ ایک تو یہ کہ ان ناموں کی تفصیلات کے ذریعے ’’واقعہ اور روایت کے سمجھنے میں مدد ملے۔‘‘ اور دوسری وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ’’محاسن شعری اور بلاغت کے نکات سمجھ میں آئیں۔‘‘ گویا شبلی نے یہاں بھی مرثیے کی ادبیت کو پیش پیش رکھا، لیکن یہ بات شبلی کے معائب میں شمار کی گئی۔ چنانچہ ’’موازنہ‘‘ کے ایک جدید مرتب ڈاکٹر سید رفیق حسین نے اپنے دیباچے میں تحریر فرمایا کہ ’’مولانا شبلی نے واقعۂ کربلا پر صرف ایک جملہ لکھا ہے۔ اسے اچھی طرح واضح کر دیتے تو تصنیف روشن ہو جاتی۔‘‘
مرثیے کی مذہبی اہمیت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی پہلے تھی۔ اس میں تخفیف کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہونا چاہیے، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی مذہبی اہمیت اور مقبولیت بڑھتی ہی جائےگی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی صنف سخن کسی خاص ضرورت کو بوجہ احسن پورا کر رہی ہے، تو پھر اس کی ادبی معنویت اور محاسن شعری کے بارے میں گفتگو غیرضروری ہے مگر مشکل یہ ہے کہ مرثیے، خاص کر انیسؔ، دبیرؔ، مونسؔ، خلیقؔ وغیرہ کے مرثیے کو ادبی بحث سے دور رکھنا خود ادب کے بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔ جن معاشروں میں اب مذہب کو ضمنی ہی اہمیت حاصل ہے یا جہاں مذہب اور ادب کو کم وبیش الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کا رواج ہے، وہاں یہ مشکل نہیں۔
مثال کے طور پر، خود ملٹن نے اپنا رزمیہ Paradise Lost مذہبی نقطۂ نظر سے لکھا تھا اور اپنے خیال میں سراسر مذہبی نظم لکھی تھی جس میں اس نے انسان کے اولین گناہ (original sin) اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی جزا کی توجیہ اور جواز پیش کیا تھا۔ لیکن عیسائیت کے جس نظریے (یعنی Calvinism) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس نے Paradise Lost لکھی تھی، اس کا چلن بہت کم رہ گیا اور خود انگریزی بولنے والی اقوام میں مذہب کی وہ مرکزی اہمیت نہ رہی جو ملٹن نے اپنے زمانے میں فرض کی تھی۔ اس طرح وہ مذہبی خیالات اپنی جگہ پر رہے جن سے ملٹن کی نظم عبارت ہے اور مطالعہ کرنے والے ان کا مطالعہ اب بھی کرتے ہیں۔ لیکن ادب کے عام پڑھنے والے کے لیے اب Paradise Lost ایک اعلیٰ درجے کی نظم ہے جس میں کائناتی مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں۔
مغرب میں عقیدہ اب چونکہ پہلے کی طرح اہم نہیں رہ گیا ہے اور اب مثال کے طور پر انجیل کے دونوں عہد ناموں، قدیم وجدید کا مطالعہ محض بیانیہ کی حیثیت سے بھی کیا جا رہا ہے، لہٰذا وہاں ایسے ادب کو بھی عقیدے سے الگ کرنا مشکل نہیں جو کسی خاص مذہبی عقیدے کو ظاہر یا قائم کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ ہمارا معاملہ دوسرا ہے۔ ایک تو مذہب ہماری زندگیوں میں ابھی ایک بہت قوت مند وجود رکھتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ہماری تہذیب میں زندگی اور مذہب کو اس طرح ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے کی رسم ہی نہیں ہے۔ ’’مہابھارت‘‘، تلسی داس کی ’’رامائن‘‘ اور ’’گیتا‘‘ جیسی کتابوں کا مقدس وجود ان کے دنیاوی وجود سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مرثیے کو اگرچہ الہامی یا مقدس متن کا درجہ حاصل نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک طرح کا احترام اور تکریم ضرور وابستہ ہے، لہٰذا مرثیے کے بارے میں کوئی تنقیدی رائے ظاہر کرنا آسان نہیں۔
شبلی نے اگرچہ مرثیے کی ادبی حیثیت کو قائم اور مستحکم کرنے کے لیے بنیادی اور ناقابل فراموش اہمیت کا کام انجام دیا، لیکن دبیرؔ کے حمایتیوں کی طرف سے ان پر اعتراضات کا طوفان اٹھنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرثیے پر کسی بھی قسم کی نکتہ چینی لوگوں کو گوارا نہ تھی۔ عبدالغفور نساخ ہر حیثیت میں شبلی سے کم تر تھے، لیکن انھوں نے بھی جو بعض چھوٹے موٹے مگر درست اعتراضات کیے تھے، ان پر لکھنؤ والے اس درجہ چراغ پا شاید اس وجہ سے بھی ہوئے کہ مرثیے کو من حیث الصنف تنقید سے بالاتر رکھنے کا ایک رجحان ہم میں موجود ہے۔ وہ خفیف سا سہی، لیکن ہے ضرور اور اس رجحان نے مرثیے کی تنقید کے ارتقامیں رکاوٹیں بہرحال پیدا کی ہیں۔
شبلی کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ہم لوگوں نے مرثیے اور بالخصوص میر انیس کے مرثیے کو انگریزی عینک سے دیکھنے کی مزید سعی کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ صہبائے عقیدت سے سرشار لوگوں نے میر انیسؔ کو کبھی شیکسپیئر ہند کہا اور کبھی انھیں یونانی طرز کا رزم نگار بنانے کی کوشش کی۔ یہ دونوں باتیں ایسی ہی ہیں کہ جیسے کسی نابینا شخص سے کہا جائے کہ دریائے گنگا کی گہرائی اتنی ہی ہے جتنی دریائے ڈینیوب کی۔ جس غریب نے کبھی دریا ہی نہ دیکھا ہو، اور جو اگر دریا پر جائے بھی، تو اس کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا، اس کے لیے یہ سب موازنے مطلب ومعنی سے عاری ہیں۔ ہم ہندوستانیوں کو اس خیال سے خوشی ضرور ہو سکتی ہے کہ ہمارا شاعر شیکسپیئر و ہومر سے کم نہیں، لیکن یہ خیال ہمیں میر انیسؔ، یا مرثیہ، یا خود شیکسپیئر و ہومر کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا اور چونکہ موازنے کی کوئی واقعی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے، اس لیے اس رائے (یا فیصلے یا خیال) سے مرثیے کی با معنی تنقیدکے لیے کوئی امکانات بھی نہیں پیدا ہوتے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرثیہ کو مغربی اصناف یا طرز سخن سے مشابہہ کرنے کی کوشش میں ہم نے اپنا نقصان ہی کیا۔ کیونکہ ہم میر انیسؔ یا کسی بھی مرثیہ گو کو، شیکسپیئر یا ہومر تو ثابت کر نہ پائے اور دوسری طرف بعض لوگوں نے لامحالہ یہ توقع قائم کی کہ مرثیے پر ’’واقعہ نگاری‘‘ یا ’’واقعیت‘‘ کے اصولوں کا اطلاق ہو سکتا ہے (شبلی نے کہا تھا کہ ’’جذبات کا ادا کرنا شاعری کا اصل ہیولیٰ ہے۔۔۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے، اس انداز سے کہا جائے کہ جو اثر شاعر کے دل میں ہے، وہی سننے والوں کے دل پر بھی چھا جائے۔‘‘) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلیم الدین احمد جیسے مغرب پرست اور اسلوب احمد انصاری جیسے مشرق شناس، دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ میر انیسؔ کے یہاں ’’واقعیت‘‘ کی کمی ہے۔
جہاں تک سوال مرثیے کی خارجی ہیئت کا ہے تو یہ تو ہم نے معلوم کر لیا کہ مرثیے میں چہرہ، سراپا، رزمیہ وغیرہ اجزا ہوتے ہیں لیکن ان اجزا کو مرثیے میں داخل کرنے یا مرثیے میں ان کے در آنے کی کیا وجہیں تھیں یا ہو سکتی تھیں، ان پر ہماری تنقید نے غور نہ کیا۔ مرثیے کی شعریات پر غزل، مثنوی اور داستان کی شعریات کا کتنا اثر ہے؟ اور کیوں؟ ان سوالات پر بھی ہمارے یہاں توجہ نہ ہوئی۔ درحالیکہ مرثیہ کی معنویت اور ادبی اہمیت تک پہنچنے کے لیے یہ چیزیں زیادہ ضروری تھیں، بہ نسبت اس کے کہ میر انیسؔ اور شیکسپیئر وغیرہ میں اشتراک تلاش کیے جائیں۔
میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے بارے میں مسلسل بحثوں نے مرثیے کی عمومی ادبی معنویت کے تعین میں دو طرح کی رکاوٹیں پیدا کیں۔ ایک تو یہ کہ ان جھگڑوں کا میدان اکثر و بیشتر لفظی اور سطحی رہا۔ فلاں لفظ مرزا صاحب نے غیرفصیح باندھا ہے۔ فلاں لفظ کی تذکیر (یا تانیث) میر انیسؔ نے روا رکھی ہے، وہ درست نہیں۔ فلاں فلاں الفاظ میر صاحب، مرزا صاحب نے استعمال کیے ہیں، حالانکہ وہ متروک ہو چکے ہیں یا ان کے مدافعین کی طرف سے اس قسم کے جواب آئے کہ صاحب، آپ کا نسخہ غلط ہے۔ میر انیسؔ مرزا دبیرؔ نے یوں نہیں، یوں لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی لایعنی بحثوں میں فریقین کی توانائی ضرور صرف ہوئی، لیکن ان سے نہ صنف مرثیہ کا فائدہ ہوا اور نہ انیسؔ/دبیرؔ کا۔
مرثیے کی شعریات کے بعض اہم پہلو جو اس مخاصمۂ فضول میں نظر انداز ہو گئے اور جن پر توجہ کی جاتی تو صنف مرثیہ کے علاوہ مرزا دبیرؔ جیسے مرثیہ نگاروں کی بھی وقعت میں بہت اضافہ ہوتا، حسب ذیل ہیں،
(۱) مرثیہ بطور بیانیہ، زبانی بیانیہ اور مرثیہ میں کیا کیا باتیں مشترک ہیں؟ مرثیہ گویوں نے مرثیے کے زبانی پن سے کیا فائدہ اٹھایا؟ داستان، مثنوی، قصیدہ اور مرثیے میں کون سے اصول مشترک ہیں؟ غزل کی شعریات نے مرثیے پر کیا اثر ڈالا؟ بعض مرثیہ گویوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’کم زور‘‘ روایتیں نہیں نظم کرتے۔ یہاں روایت کے ’’کم زور‘‘ ہونے سے کیا مراد ہے؟ عقیدۂ عوام یا زبانی طور پر مشہور روایتیں؟ منظوم بیانیہ ہونے کی وجہ سے مرثیے میں ’’افسانہ پن‘‘ یعنی fictiveness کہاں تک ناگزیر ہے؟
(۲) ہماری تہذیب کی ذہنی اور روحانی روداد کی حیثیت سے مرثیہ، مرثیے میں کائنات، تقدیر، انسانی تعلقات، جرم وسزا، جیسی چیزوں کے بارے میں کیا رویہ ملتا ہے؟ کیا مرثیے کی دنیا اور ہماری روزہ مرہ کی دنیا میں سب باتیں مشترک ہیں؟ اگر نہیں، تو ایسا کیوں نہیں ہے؟
(۳) مرثیہ خوانی کے نکات، میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے علاوہ بھی بعض مرثیہ نگاروں، مثلاً دولھا صاحب عروج اور علی محمد عارف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ مرثیہ پڑھتے خوب تھے۔ نیر مسعود نے ’’مرثیہ خوانی کا فن‘‘ نامی کتاب جو لکھی ہے، مرثیہ خوانی کو سمجھنے کی طرف پہلی کوشش ہے۔ یہاں کچھ باتیں جو مزید توجہ طلب ہیں، ان کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ غزل، مثنوی اور قصیدہ پہلے سے تھے، بڑی اصناف میں مرثیہ سب سے تازہ وارد ہے۔ غزل، قصیدہ یا مثنوی خوانی کے طرز نے مرثیے کی خواندگی کو کس طرح متاثر کیا ہوگا؟
دوسری بات یہ کہ کیا مرثیے میں رزم کا التزام مثنوی کے اثر کا نتیجہ ہے؟ مثنوی بھی چونکہ پڑھ کر سنائی جاتی تھی، اس لیے اس میں رزم کا عنصر فطری تھا۔ ’’عوامی‘‘ رزمیوں، مثلاً ’’آلھا او دل‘‘ اور ’’پرتھوی راج راسو‘‘ سے لے کر روشن علی اور ان کی طرح کے دیگر ’’جنگ ناموں‘‘ میں رزم کی کثرت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان سب اصناف کا آپس میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے اور ان میں قدر مشترکہ زبانی خواندگی بھی ہوگی۔
(۴) مرثیہ ایسی صنف ہے جو ناخواندہ، غیرشہری اور ’’عوامی اسٹیج‘‘ کے ماحول میں یکساں مقبول اور کامیاب ہے، لہٰذا مرثیے اور جنگ ناموں کا تقابلی مطالعہ دونوں کے بارے میں بہت سی نئی دریافتیں بہم پہنچا سکتا ہے۔
(۵) یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ تحت شہری اور مضافاتی ماحول میں مرثیہ خوانی، مرثیہ گوئی اور مرثیہ کو زبانی یاد کرنے، فی البدیہ مرثیے کہنے کی کیا رسومیات تھی؟ تحت شہری ماحول اور شہری ماحول کے مراثی میں مرثیہ نگاری اور مرثیہ خوانی کے طور طریقوں میں کس حد تک اشتراک تھا اور کس حد تک افتراق؟
اس طرح کے کئی معاملات ہیں جن پر غور نہیں کیا گیا۔ ایک بات جو انھیں باتوں سے نکلتی ہے، وہ خود اپنے بارے میں مرثیہ گو کے سامعین اور مرثیہ گو کے تاثر کے بارے میں ہے، یعنی سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے بارے میں کس طرح کا خیال رکھتے تھے، ان کا self image کیا تھا؟ مثال کے طور پر، شبلی کا فیصلہ مجموعی طور پر میر انیسؔ کے حق میں تھا اور آج ہم میں سے بھی اکثر لوگ میر انیسؔ کو مرزا دبیرؔ سے بہت بہتر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرزا دبیرؔ کے بھی طرف دار بہت ہیں اور خود ان کے زمانے میں تو کثرت سے لوگ تھے جو دبیرؔ کی حمایت اور انیسؔ کی مخالفت میں مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے تھے۔
شبلی نے صنف مرثیہ اور انیسؔ و دبیرؔ کی اتنی بڑی خدمت انجام دی، لیکن اس وجہ سے کہ انھوں نے انیسؔ کو دبیرؔ پر فوقیت دی تھی، شبلی کو دبیریوں کی طرف سے ایسی ایسی باتیں سننی پڑیں جو متانت اور علمیت دونوں کے منافی تھیں اور احسان فراموشی کا حکم رکھتی تھیں لیکن سوچنے اور پوچھنے کی بات یہ ہے کہ اگر دبیرؔ واقعی بالکل معمولی شاعر تھے تو ان کے اتنے مداح کیوں تھے؟ کس بنا پر وہ انہیں میر انیسؔ پر فوقیت دیتے تھے؟ اگر صغیر بلگرامی/شیخ ریاض الدین امجد کی روایت صحیح ہے تو غالب نے بھی مرثیہ گوئی کو ’’مرزا دبیر کاحصہ‘‘ قرار دیا تھا۔
ہم یہ کہہ کر نہیں نکل سکتے کہ اس زمانے کے لوگ سب احمق یا کور ذوق تھے۔ انیسؔ و دبیرؔ کے زمانے میں (انتزاع سلطنتِ اودھ کے بعد بھی) لکھنؤ مرجع کمال تھا اور یوں بھی، کسی زمانے میں سب کے سب لوگ احمق نہیں ہو سکتے، پھر سب سے بڑی بات یہ کہ آج مرثیے کی شعریات بہت حد تک ہم سے کھو گئی ہے۔ جبکہ انیسؔ اور دبیرؔ کے سامعین کے لیے وہ زندہ حقیقت تھی۔ مرثیے کے بارے میں عملی اور تہذیبی طور پر وہ لوگ، کیا ہندو کیا مسلمان، ہم سے بہت زیادہ جانتے تھے۔ انیسؔ و دبیرؔ کے سامعین کا self image یہ تھا کہ ہم صاحب ذوق لوگ ہیں، بڑے بڑوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں، مرثیہ ہماری مذہبی حقیقت بھی ہے اور ادبی وتہذیبی حقیقت بھی۔ اس self image کو سراسر غلط وہی سمجھ سکتا ہے جو پریم چند اور ستیہ جیت رائے کے شطرنج بازوں کو اقعی اور مبنی برحقیقت سمجھتا ہو۔
تو پھر ایسے لوگوں کی توقع مرثیہ گویوں سے کیا تھی؟ اور مرزا دبیرؔ اس توقع کو کس طرح اور کس حد تک پورا کرتے تھے؟ اس سوال کا جواب ان لوگوں کے پاس ڈھونڈنا بےکار ہے جو مرثیے کو یونانی رزمیہ یا شیکسپیئر کا ڈراما سمجھتے ہیں۔
دوسری بات، جو شاید زیادہ اہم اور زیادہ دیر تک قائم رہنے والی رکاوٹ بنی، وہ یہ تھی کہ مرثیے کے طالب علم کو انیسؔ و دبیرؔ کی تحکیم میں اتنا لطف آنے لگا کہ اسے ان کے علاوہ کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہ ملی اور اگر کسی نے کوشش بھی کی (مثلاً جعفر رضا نے میر عشق اور ان کے گھرانے کے بارے میں لکھا) تو اس کا بھی زورِ طبع انھیں یا اسی طرح کی باتوں پر صرف ہوا۔ شبلی نے عمدہ بات لکھی تھی کہ میر ضمیرؔ کا منتخب کلام ’’میر انیسؔؔ صاحب کا کلام معلوم ہوگا۔‘‘ شبلی نے یہ بھی کہاکہ ’’قیاس ہوتا ہے کہ میر خلیقؔ نے میر ضمیرؔ سے کچھ کم اس فن پر احسان نہیں کیا ہوگا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کا کلام نہیں ملتا۔‘‘
اس زمانے میں چندمرثیے جو میر خلیقؔ کے نام سے ایک صاحب نے شائع کیے تھے، وہ میر انیسؔ کے نام سے بھی موسوم ومطیع تھے۔ شبلی نے لکھا کہ ’’اگر وہ واقعی میر خلیقؔ کا کلام ہے تو بیٹے کو باپ پر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘ مسعود حسن رضوی ادیب کی کاوشوں اور دریافتوں کے نتیجے میں میر خلیقؔ کا کلام مل بھی گیا اور میر ضمیرؔ کا خاصا کلام پہلے سے موجود بھی تھا، لیکن اردو کے کسی اہم نقاد نے ان کی طرف توجہ نہ دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کہیں دل کے کسی گوشے میں خیال تھا کہ ایک ہی دو مرثیہ گو ہمارے لیے بہت ہیں اور مزید مرثیہ گو ہوں گے بھی کہاں؟ میر انیسؔ نے تو سب کے تختے الٹ دیے۔
انیسؔ و دبیرؔ سے ہٹ کر دوسرے مرثیہ گویوں پر توجہ نہ کرنے کی وجہ جو بھی رہی ہو، لیکن اس کا نقصان دیگر مرثیہ گویوں کے ساتھ انیسؔ ودبیرؔ کا بھی ہوا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ٹی ایس الیٹ نے جب شیکسپیئر کے بعض نسبتاً کم معروف ڈرامانگار معاصرین کے تفصیلی مطالعے پیش کیے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ فن ڈراما اور فن شعر کی بہت سی نزاکتیں، جنھیں وہ شیکسپیئر سے مخصوص سمجھتے تھے، عہد الزبتھ کے تمام اچھے ڈراما نگاروں کے یہاں موجود ہیں اور وہ خوبیاں غالباً اس زمانے کے فن کا خاصہ تھیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی پتا لگا کہ شیکسپیئر اپنے معاصرین سے واقعی کن صفات کی بنا پر ممتاز ہے۔ تقابلی مطالعے نے بتایاکہ بعض خوبیاں جو اوروں کے یہاں بھی ہیں، شیکسپیئر کے کلام میں زیادہ شدت یا مہارت سے برتی گئی ہیں۔
بالکل یہی حال انیسؔ و دبیر کا ہوا کہ ضمیرؔ، خلیقؔ، مونسؔ، نفیسؔ، عشقؔ وغیرہ کے کلام کا تفصیلی اور بالاستیعاب مطالعہ نہ ہونے کی بنا پر ہم ان کی تقابلی خوبیوں، مضبوطیوں اور یکتائیوں سے بے خبر رہے اور اب بھی بے خبر ہیں۔ جب بھی مرثیہ کے مطالعے کی بات آتی ہے، بحث گھوم پھر کر انیسؔ و دبیرؔ تک ہی رہتی ہے، اس لیے مرثیے کی معنویت کے بارے بھی ہم انھیں ایک دو ناموں کے حوالے سے سوچتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مایوس ہوتے ہیں۔ جب ہم نے انیسؔ ودبیرؔ کے لکھنوی پیش روؤں اور معاصروں سے صرفِ نظر کر رکھا ہے تو دہلی اور پھر دکن کی مرثیہ گوئی کو پوچھنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟
مرثیے کی شعریات میں ایک اہم اضافہ میر انیسؔ کے زمانے میں اور شاید ان کے ہی ہاتھوں یہ ہوا کہ مرثیے میں استعارہ، رعایت اور مناسبت الفاظ کا بول بالا ہوا۔ انیسؔ کے زمانے سے پہلے یہ خصائص مرثیے میں بہت کم تھے۔ مرثیے کو بین کی سطح سے اٹھاکر شاعری کی سطح پر قائم کرنے میں ان چیزوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ شبلی نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ ’’خیال بندی، مضمون آفرینی، دقت پسندی، مبالغہ، صنائع وبدائع، شاعری کی حقیقت میں داخل نہیں، اگرچہ بعض جگہ یہ چیزیں نقش ونگار اور زیب وزینت کا کام دیتی ہیں۔‘‘
یہ بیان صحیح ہو یا غلط، لیکن ظاہر ہے کہ یہ میر انیسؔ، یا لکھنؤ کے کسی بھی اہم مرثیہ گو کے کلام کے بارے میں دور رس غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ ان غلط فہمیوں کا تدارک صرف اس بات سے نہ ہوگا کہ میر انیسؔ یا دیگر مرثیہ نگاروں کے یہاں بکارلائی ہوئی صنعتوں کی فہرست بنائی جائے۔ اس سے بہت زیادہ ضروری یہ ہے کہ مرثیے کی شعریات کو از سرنو اس طرح مرتب کیا جائے کہ مرثیہ، غزل، قصیدہ، مثنوی اور داستان سب ایک باپ کی اولاد معلوم ہوں۔