مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
یہ استدلالی ترک کرو بس استفہامی رہنے دو
یہ تیز روی یہ ترش روئی چلنے کی نہیں ہے دور تلک
شبنم نظری شیریں سخنی آسودہ گامی رہنے دو
سو دشت سمندر چھانو پر آتے رہو قریۂ دل تک بھی
بیرونی ہوا کے جھونکوں میں اک موج مقامی رہنے دو
اب طنز پہ کیوں مجبور کرو ہم غیر ملوث لوگوں کو
فن پیش کرو یہ فہرست اسمائے گرامی رہنے دو
رفتار پر اتنی داد نہ دو منزل نہ مری چھنیو مجھ سے
از راہ ہنر مرے حصے کی تھوڑی ناکامی رہنے دو
جتلاتے پھرو گر قد اپنا پیمائش کی مہلت تو نہ دو
اس قامت بالا کے صدقے یہ زود قیامی رہنے دو
اب ہم سے پریشاں حالاں کو کیا امن و سکوں راس آئے گا
یوں ہی بحرانی چلنے دو سارا ہنگامی رہنے دو
اے سازؔ وگرنہ لوگ تمہیں ٹھہرائیں گے سانپوں کا مسکن
اس شہر عکس گزیدہ میں آئینہ فامی رہنے دو