مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا
مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا
میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا
دل مر مٹا تلاوت رخسار یار میں
مرحوم طفلگی سے ہی اہل کتاب تھا
سوچا تو اس حبیب کو پایا قریب جاں
دیکھا تو آستیں میں چھپا آفتاب تھا
وہ بارگاہ میری وفا کا جواز تھی
اس آستاں کی خاک مرا ہی شباب تھا
میری ہر ایک صبح تھی آغوش دلبری
میری ہر ایک شام کا عنواں شراب تھا
دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست
اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا
کب اس سیاہ بخت نے چھوڑا کسی کا ساتھ
دشت جنوں میں سایہ مرا ہم رکاب تھا
تو کب مآل جور و جفا کو سمجھ سکا
تیرا جمال تیرے لیے بھی حجاب تھا
جس دور کو فقیہ نے عصیاں سمجھ لیا
اس دور میں تو پی کے بہکنا ثواب تھا
وہ حسن کس قدر ادب آموز تھا ظہیرؔ
قد خامۂ رواں تھا تو چہرہ کتاب تھا