مرحلہ شوق کا ہے لفظ و بیاں سے آگے
مرحلہ شوق کا ہے لفظ و بیاں سے آگے
ایک شعلہ ہے کوئی برق تپاں سے آگے
اپنی حیرت کا تو ہے علم یقیں سے پہلے
تو بتا مجھ کو ہے کیا میرے گماں سے آگے
ہاں مرا شوق لقا تیری عنایت ہی سہی
کیا ملا مجھ کو مگر عجز بیاں سے آگے
کیوں بنا ڈالا اسے میری نگاہوں کا غرور
تیرا جلوہ ہے اگر حسن بتاں سے آگے
اپنی خلوت سے کبھی تو بھی نہ باہر جھانکا
مجھ کو جانے نہ دیا میرے مکاں سے آگے
کچھ نہیں اس کے سوا اپنی نگاہوں کی بساط
کچھ دکھائی نہ دیا سود و زیاں سے آگے
فہم و ادراک پہ بھی میرے ہے پہرا تیرا
اور تو سارے مکاں سارے زماں سے آگے
امتحاں ختم نہیں ہوتا اسی پر طرزیؔ
جوئے خوں لانی ہے اک اشک رواں سے آگے