مرگ احساس با لیقین آخر
مرگ احساس با لیقین آخر
آدمی بن گیا مشین آخر
ایک اک کر کے ہو گئے رخصت
خانۂ دل کے سب مکین آخر
گھر بھی مدفن بنے ہیں گلیاں بھی
تنگ ہونے لگی زمین آخر
تیری چوکھٹ سے رہ سکے نہ الگ
سنگ در ہو گئی جبین آخر
پا سکے خوں بہا دیت نہ قصاص
زندگی کے لواحقین آخر
عشق تسخیر کائنات کے بعد
ہو رہا دل میں ہی مکین آخر
کھیل تو ختم ہو چکا ہے ربابؔ
کیوں رکے ہیں تماشبین آخر