ایک مسلمان کو مریض کی عیادت کیسے کرنی چاہیے؟
انسان تن درست ہو تووہ زندگی کی نعمتوں سے بھر پور لطف اٹھاتاہے اور اگر تن کو بیماری لگ جائے تو ا ب چاہے لاکھوں نعمتوں کا مالک ہو مگر اس کے حق میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام جہاں صحت کو نعمت قرار دیتا ہے وہاں بیماری کو بھی ایک طرح کی نعمت بتاتا ہے اور نہ صرف بیمار کے فضائل بیان کرتا ہے بلکہ بیمار کی عیادت کرنے کی اہمیت وفضیلت پربھی روشنی ڈالتا ہے ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو کوئی رنج ، دکھ ، فکر،تکلیف،اذیت اور غم پہنچتا ہے حتیٰ کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(صحیح بخاری)
تاہم کوئی مسلمان بیمار ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کا خیال رکھیں، اس کی تیمار داری کریں اور اس کی عیادت کے لیے ضرور حاضر ہوں۔ ذیل میں ہم مریض کی عیادت اور تیمارداری کے چند آداب بیان کررہے ہیں:
مریض کے ساتھ حسن سلوک :چونکہ مریض بیماری میں اپنی حالت وکیفیت پر نہیں رہتا ۔اس کی قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں ، مزاج وطبیعت میں تبدیلی آجاتی ہے،منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور کبھی کبھار چڑچڑا پن اسے گھیر لیتا ہے ۔لہٰذا ایسے وقت میں وہ انتہائی نرم سلوک کا مستحق ہوتا ہے ۔اس پر سختی نہ کی جائے اورکھانے وغیرہ کے معاملے میں اس کے ساتھ ضدنہ کی جائے بلکہ انتہائی محبت وپیارکے ساتھ اُسے اس کے اچھے یا برے کے بارے میں بتایا جائے۔
عیادت کی اہمیت وفضیلت:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مریضوں کی عیادت کیا کرواور جنازوں میں شرکت کیا کرو یہ تمہیں آخر ت کی یا د دلاتے رہیں گے ۔(مسندامام احمد) ایک اور حدیث میں اللہ تعالیٰ بروزقیامت فرمائے گا:اے ابن آدم! میں بیمار ہوا مگرتو نے میری عیادت نہیں کی۔بندہ عرض کرے گا:میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو تمام جہانوں کا پروردگار ہے؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیاتجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمارہے، پھر بھی تو نے اس کی عیادت نہ کی؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔(صحیح مسلم)
مرض کی سختی بیان نہ کریں: عیادت کرنے والا اگر مرض کی سختی دیکھے تو مریض کے سامنے یہ ظاہر نہ کرے کہ تمہاری حالت خراب ہے بلکہ اس کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہییں جو اس کے دل کو اچھی لگیں
زیادہ دیر نہ ٹھہریں:مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے سوائے اس شخص کے کہ جس کے زیادہ دیرٹھہرنے سے مریض کو خوشی حاصل ہوجبکہ کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :عیادت میں مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنا اور شور نہ کرنا سنت ہے۔(مشکوٰۃ)
مریض کے اور اپنے لیے دعا: عیادت کرنے والے کو چاہیے کہ جہاں وہ مریض کے لئے دعا کرے وہیں مریض سے اپنے لئے بھی دعا کروائے ۔جیساکہ حدیث شریف میں ہے: جب تم بیمار کے پاس جاؤتو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
ہمارے معاشرہ میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے لوگ اس خوف سے عیادت کرتے ہیں کہ میں نے اگر کچھ نہیں پوچھا تو وہ یا اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، اس سے ثواب جاتا رہتا ہے اور عمل کے باوجود اتباعِ سنت کا اجر حاصل نہیں ہوتا۔
اگر کوئی غریب ہے تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہمدردی کا موقع نہیں ملتا، چوں کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ کوئی توقع ہے جبکہ یہ رجحان دینی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے. عیادت کیلئے رشتہ داری اور مالداری کو توسط نہیں بنانا چاہئے کوئی بھی مریض ہو خواہ وہ رشتہ داروں میں سے نہ ہو۔
اسی طرح مریض کے لیے آج کل کوئی پھولوں کا گلدستہ یا پھل وغیرہ لے جانا آج کل لازمی سمجھ لیا گیا ہے اور بعض غریب لوگ اس لیے بھی عیادت کے اجر سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی شے لے جانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ اس طرح کی چیزوں کو اپنے اوپر لازم نہیں کرلینا چاہیے کیونکہ دین اور شریعت میں یہ لازمی نہیں بلکہ الٹا اپنے لیے اور مریض کے لیے بلاوجہ تکلف اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔