مرد میداں ہو تو کیوں کترا رہے ہو جنگ سے
مرد میداں ہو تو کیوں کترا رہے ہو جنگ سے
کب تلک خر مستیاں یوں ہی رباب و چنگ سے
بے حسی اوڑھے ہوئے کب تک یوں ہی ذلت سہیں
کوئی تو آواز اٹھائے اک نئے آہنگ سے
ہو بسیرا خاک پر دائم ترا مثل ملنگ
جوڑ مت رشتہ تو اپنی ذات کا اورنگ سے
ہو ترا اخلاق بر بنیاد عجز و انکسار
آدمیت رکھ بچا کر نفرتوں کے زنگ سے
مت دلیلیں پیش کر کوتاہیوں پر اس طرح
باعث تعزیر ٹھہرے گا تو عذر لنگ سے
پونچھ دے گرد تغافل توڑ تار عنکبوت
نقش روشن ہوں تری تصویر کے ارژنگ سے
آنکھ میں افواج خوابوں کی اتاریں مستقل
اور تعبیریں اٹھائیں زندگی کی جنگ سے