مرض لگتا ہے جو مجھ کو اسے میری دوا سمجھے
مرض لگتا ہے جو مجھ کو اسے میری دوا سمجھے
دوانہ ہو گیا ہوں میں دوانوں کو وہ کیا سمجھے
میں اپنے آپ میں خوش ہوں مجھے اس سے غرض کیا ہے
کہ یہ مجھ کو بھلا سمجھے کہ وہ مجھ کو برا سمجھے
بچھڑنے کا وہ ہم سے نام تک لینے سے گھبرائے
جسے ہم ہجر کہتے ہیں اسے وہ بد دعا سمجھے
گناہوں سے بچا جائے کہاں تک اس زمانے میں
کہ ہر اک موڑ پر ملتے ہیں وہ جن سے خدا سمجھے
بھروسا کیا محبت کب تمہیں بدنام کر جائے
کہ عاشق کو ہمیشہ ہی زمانہ سر پھرا سمجھے
ہمیں وہ کس سزا کے واسطے تیار کرتا ہے
جو اپنے بھی گناہوں کو ہماری ہی خطا سمجھے
وہ ہم سے نیند کے رستے سہی پر روبرو تو ہو
کبھی تو آنکھوں میں بھر لے ہمیں بھی خواب سا سمجھے
ہمیں افرنگؔ ظالم سے شکایت ہے تو اتنی ہے
ہم اس کو تو سمجھتے ہیں وہ ہم کو بھی ذرا سمجھے