مر جائیں گے لیکن کبھی الفت نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن کبھی الفت نہ کریں گے
ہم جینے کو اپنے یہ مصیبت نہ کریں گے
ہے دل میں کہ مل جائیے اب بو الہوسوں میں
پھر ہم سے کہاں تک وہ مروت نہ کریں گے
کہتے ہیں مری جان کا جانا نہیں ممکن
جب تک وہ مجھے آپ سے رخصت نہ کریں گے
اے خضر جو پینا ہو ہمیں آب بقا بھی
اس پھرنے سے مے خانہ کی خدمت نہ کریں گے
تو اب تو گریباں کو مرے چھوڑ دے عارفؔ
بس آج سے ہم تجھ کو نصیحت نہ کریں گے