مقصد حیات

بے ثباتی زیست کی تسلیم کرتا ہوں مگر
کیا ضروری ہے کہ بے مقصد بھی ہو جائے حیات
کوئی نسب العین ہو گر آدمی کے سامنے
ہستیٔ ناچیز بھی ثابت ہو روح کائنات
اک حقیقت مجھ پہ روشن ہے جو کرتا ہوں بیاں
جبکہ میں اے دوستو مرد جہاں دیدہ نہیں
بے ارادہ کیوں پھرے انسان دشت دہر میں
زندگی جو کچھ بھی ہو برگ خزاں دیدہ نہیں