منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہ گزر کی بات کرو
منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہ گزر کی بات کرو
آغاز سفر سے پہلے کیوں انجام سفر کی بات کرو
ظالم نے لیا ہے شرما کر پھر گوشۂ داماں چٹکی میں
ہے وقت کہ تم بے باکی سے اب دیدۂ تر کی بات کرو
آیا ہے چمن میں موسم گل آئی ہیں ہوائیں زنداں تک
دیوار کی باتیں ہو لیں گی اس وقت تو در کی بات کرو
ہے تیز ہوا ہلتا ہے قفس خطرے میں پڑی ہے ہر تیلی
فریاد اسیری بند کرو اب جنبش پر کی بات کرو
کیوں دار و رسن کے سائے میں منصور کی باتیں کرتے ہو
رکھنا ہے جو اونچا سر اپنا تو اپنے ہی سر کی بات کرو
کیوں اہل جنوں ارباب خرد کی محفل میں خاموش رہیں
وہ اپنے ہنر کی بات کریں تم اپنے ہنر کی بات کرو
کیا بربط و دف دم توڑ چکے موت آ گئی کیا ہر نغمے کو
تم مطرب جام و مینا ہو کیوں تیغ و سپر کی بات کرو