منظر شمشان ہو گیا ہے

منظر شمشان ہو گیا ہے
دل قبرستان ہو گیا ہے


اک سانس کے بعد دوسری سانس
جینا بھگتان ہو گیا ہے


چھو آئے ہیں ہم یقیں کی سرحد
جس وقت گمان ہو گیا ہے


سرگوشیوں کی دھمک ہے ہر سو
غل کانوں کان ہو گیا ہے


وہ لمحہ ہوں میں کہ اک زمانہ
میرے دوران ہو گیا ہے


سو نوک پلک پلک جھپک میں
عقدہ آسان ہو گیا ہے


منزل وہ خم سفر ہے جس پر
چوری سامان ہو گیا ہے


اک مرحلۂ کشاکش فن
وجہ امکان ہو گیا ہے


کاغذ پہ قلم ذرا جو پھسلا
اظہار بیان ہو گیا ہے


پیدا ہوتے ہی آدمی کو
لاحق نسیان ہو گیا ہے


پیلی آنکھوں میں زرد سپنے
شب کو یرقان ہو گیا ہے


سودے میں غزل کے فائدہ سازؔ
کیسا نقصان ہو گیا ہے