منٹو کے افسانے"نعرہ" کی تیسری قسط
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں تھی۔ جتنی کہ اس دو بلڈنگوں والے سیٹھ کے پاس تھی اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہو گی، پر وہ غریب کیسے ہو گیا؟۔۔۔ اسے غریب سمجھ کر ہی تو گالی دی گئی تھی۔
ورنہ اس گنجے سیٹھ کی کیا مجال تھی کہ کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اسے دو گالیاں سنا دیتا۔ گویا کسی کے پاس دھن دولت کا نہ ہونا بہت بُری بات ہے۔ اب یہ اس کا قصور نہیں تھا کہ اس کے پاس دولت کی کمی تھی۔ سچ پوچھئے تو اس نے کبھی دھن دولت کے خواب دیکھے ہی نہ تھے۔ وہ اپنے حال میں مست تھا۔ اس کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ پر پچھلے مہینے ایکاایکی اس کی بیوی بیمار پڑ گئی اور اس کے دوا دارو پر وہ تمام روپے خرچ ہو گئے جو کرائے میں جانے والے تھے۔ اگر وہ خود بیمار ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ دواؤں پر روپیہ خرچ نہ کرتا۔ لیکن یہاں تو اس کے ہونے والے بچے کی بات تھی ۔ اس کو اولاد بہت پیاری تھی۔ جو پیدا ہو چکی تھی اور جو پیدا ہونے والی تھی، سب کی سب عزیز تھی۔ وہ کیسے اپنی بیوی کا علاج نہ کراتا؟ ۔۔۔ کیا وہ اس بچے کا باپ نہ تھا؟۔۔۔ باپ... پِتا۔۔۔ وہ تو صرف دو مہینے کے کرائے کی بات تھی اگر اسے اپنے بچے کے لیے چوری بھی کرنا پڑتی تو وہ کبھی نہ چُوکتا۔۔۔
چوری، نہیں نہیں وہ چوری کبھی نہ کرتا!!!
یوں سمجھئے کہ وہ اپنے بچے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار تھا مگر وہ چور کبھی نہ بنتا۔ وہ اپنی چِھنی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے لڑنے مرنے کو تیار تھا، پر وہ چوری نہیں کر سکتا تھا۔
اگروہ چاہتا تو اس وقت جب سیٹھ نے اسے گالی دی تھی، آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیتا اور اس تجوری میں سے وہ تمام نیلے اور سبز نوٹ نکال کر بھاگ جاتا جن کو وہ آج تک لاجونتی پَتّے سمجھا کرتا تھا۔۔۔ نہیں نہیں وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔ لیکن پھر سیٹھ نے اسے گالی کیوں دی؟۔۔۔ پچھلے برس چوپاٹی پر ایک گاہک نے اسے گالی دی تھی، اس لیے کہ دو پیسے کی مونگ پھلی میں چار دانے کڑوے چلے گئے تھے اور اس کے جواب میں اس کی گردن پر ایسی دھول جمائی تھی کہ دُور بنچ پر بیٹھے آدمیوں نے بھی اس کی آواز سُن لی تھی۔ مگر سیٹھ نے اسے دو گالیاں دِیں اور وہ چپ رہا۔ کیشوّ لال کھاری سینگ والا، جس کی بابت یہ مشہور تھا کہ وہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا!!!
سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا۔ دوسری گالی دی تو بھی وہ خاموش رہا جیسے وہ مٹی کا پُتلا ہے۔ پر مٹی کا پُتلا کیسے ہوا؟ اس نے ان دو گالیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا، جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر خاموش رہا اس لیے کہ وہ اپنا غرور نیچے چھوڑ آیا تھا۔۔۔ مگر اس نے اپنا غرور اپنے سے کیوں الگ کیا؟ سیٹھ سے گالیاں لینے کے لیے؟ یہ سوچتے ہوئے ایکا ایکی خیال آیا کہ شاید سیٹھ نے اسے نہیں ،کسی اور کو گالیاں دی تھیں۔
نہیں نہیں، گالیاں اسے ہی دی گئی تھیں، تو اس سوچ بچار کی ضرورت ہی کیا تھی اور یہ جو اس کے سینے میں ہلڑ سا مچ رہا تھا، کیا بغیر کسی وجہ کے اسے دُکھ دے رہا تھا؟ اسی کو دو گالیاں دی گئی تھیں۔
جب اس کے سامنے ایک موٹر نے اپنے ماتھے کی بتیاں روشن کیں تو اُسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دو گالیاں پگھل کر اس کی آنکھوں میں دھنس گئی ہیں۔۔۔ گالیاں۔۔۔ گالیاں۔۔۔۔۔۔ وہ جھنجھلا گیا۔۔۔ وہ جتنی کوشش کرتا تھا کہ ان گالیوں کی بابت نہ سوچے اتنی ہی شدت سے اسے ان کے متعلق سوچنا پڑتا تھا اور یہ مجبوری اسے بہت چڑچڑا بنا رہی تھی۔ چنانچہ اس چڑچڑے پن میں اس نے خواہ مخواہ دو تین آدمیوں کو ، جو اس کے پاس سے گزر رہے تھے، دل ہی دل میں گالیاں دیں۔ یوں اکڑ کے چل رہے ہیں جیسے ان کے باوا کا راج ہے!۔
اگر اس کا راج ہوتا تو سیٹھ کو مزا چکھا دیتا جو اسے اُوپر تلے دو گالیاں سُنا کر اپنے گھر میں یوں آرام سے بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنی گدّے دار کرسی میں سے دو کھٹمل نکال کر باہر پھینک دئیے ہیں۔۔۔ سچ مچ اگر اس کا اپنا راج ہوتا تو وہ چوک میں بہت سے لوگوں کو اکٹھا کر کے سیٹھ کو بیچ میں کھڑا کر دیتا اور اس کی گنجی چُندیا پر اس زور سے دھپّا مارتا کہ بلبلا اُٹھتا۔۔۔ پھر وہ سب لوگوں سے کہتا ، ہنسو، جی بھر کر ہنسو اور خود اتنا ہنستا کہ ہنستے ہنستے اس کا پیٹ دُکھنے لگتا۔۔۔ پر اس وقت اسے بالکل ہنسی نہیں آئی تھی۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ وہ اپنے راج کے بغیر بھی تو سیٹھ کے گنجے سر پر دھپا مار سکتا تھا، اسے کس بات کی رُکاوٹ تھی؟ ۔۔۔ رُکاوٹ تھی۔۔۔ رُکاوٹ تھی تو دو گالیاں سُن کر خاموش ہو رہا۔
اس کے قدم رُک گئے۔ اس کا دماغ بھی ایک دو پل کے لیے سُستایا اور اس نے سوچا کہ چلو ابھی اس جھنجھٹ کا فیصلہ ہی کر دوں۔۔۔ بھاگا ہوا جاؤں اور ایک ہی جھٹکے میں سیٹھ کی گردن مروڑ کر اس تجوری پر رکھ دوں جس کا ڈھکنا مگرمچھ کے منہ کی طرح کھلتا ہے۔۔۔ لیکن وہ کھمبے کی طرح زمین میں کیوں گڑ گیا تھا؟ سیٹھ کے گھر کی طرف پلٹا کیوں نہیں؟۔۔۔۔۔۔ کیا اس میں جرأت نہ تھی؟
اس میں جرأت نہ تھی۔۔۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اس کی ساری طاقت سرد پڑگئی تھی۔۔۔ یہ گالیاں۔۔۔ وہ ان گالیوں کو کیا کہتا۔۔۔ ان گالیوں نے اس کی چوڑی چھاتی پر رول سا پھیر دیا تھا۔۔۔ صرف دو گالیوں نے۔۔۔ حالانکہ پچھلے ہندو مسلم فساد میں ایک ہندو نے اسے مسلمان سمجھ کر لاٹھیوں سے بہت پیٹا تھا اور ادھ مؤا کر دیا تھا اور اسے اتنی تکلیف محسوس نہ ہوئی تھی جتنی کہ اب ہو رہی تھی۔۔۔ کیشولال کھاری سینگ والا جو اپنے دوستوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑا۔ آج یوں چل رہا تھا جیسے برسوں کا روگی ہے۔۔۔ اور یہ روگ کس نے پیدا کیا تھا؟۔۔۔ دو گالیوں نے!
گالیاں۔۔۔۔۔۔ گالیاں۔۔۔ کہاں تھیں وہ دو گالیاں؟ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے، باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اس کے سامنے آئے اس کے سر پر دے مارے، پر یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ اس کا سینہ مربّے کا مرتبان تھوڑا ہی تھا۔