منٹو کے افسانے"نعرہ" کی پہلی قسط
اسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھردی گئی ہیں۔
وہ ساتویں منزل سے ایک ایک سیڑھی کر کے نیچے اُترا اور ان تمام منزلوں کا بوجھ اس کے چوڑے مگر دبلے کاندھے پر سوار ہوتا گیا۔ وہ مکان کے مالک سے ملنے کے لیے اُوپر چڑھ رہا تھا تو اسے یوں محسوس ہوا تھا کہ اس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اور کچھ ہلکا ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے اپنے دل میں سوچا تھا مالک مکان، جسے سب سیٹھ کے نام سے پکارتے ہیں، اس کی بپتا ضرور سُنے گا اور کرایہ چکانے کے لیے اسے ایک مہینے کی اور مہلت بخش دے گا۔۔۔۔۔۔ بخش دے گا!۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اس کے غرور کو ٹھیس لگی تھی۔ لیکن فوراً ہی اس کو اصلیت بھی معلوم ہو گئی تھی۔۔۔ وہ بھیگ مانگنے ہی تو جا رہا تھا اور بھیک ہاتھ پھیلا کر، آنکھوں میں آنسو بھر کر اپنے دُکھ درد سُنا کر اور اپنے گھاؤ دکھا کر ہی مانگی جاتی ہے۔۔۔!
اس نے یہی کچھ کیا۔ جب وہ اس سنگین عمارت کے بڑے دروازے میں داخل ہونے لگا تو اس نے اپنے غرور کو، اس چیز کو جو بھیک مانگنے میں عام طور پر رکاوٹ پیدا کیا کرتی ہے، نکال کر فٹ پاتھ پر ڈال دیا تھا۔
وہ اپنا دِیا بُجھاکر اور اپنے آپ کو اندھیرے میں لپیٹ کر مالک مکان کے اس روشن کمرے میں داخل ہوا جہاں وہ اپنی دو بلڈنگوں کا کرایہ وصول کرتا تھا اور ہاتھ جوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ کے تِلک لگے ماتھے پر کئی سلوٹیں پڑ گئیں۔ اس کا بالوں بھرا ہاتھ ایک موٹی سی کاپی کی طرف بڑھا۔ دو بڑی بڑی آنکھوں نے اس کاپی پر کچھ حروف پڑھے اور ایک بھدّی سی آواز گونجی۔
"کیشوّلال۔۔۔ کھولی نمبر پانچ، دوسرا مالا۔۔۔ دو مہینوں کا کرایہ۔۔۔ لے آئے ہو کیا؟"
یہ سُن کر اس نے اپنا دل، جس کے سارے پُرانے اور نئے گھاؤ، وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کرید کرید کر ہرے کر چکا تھا، سیٹھ کو دِکھانا چاہا۔ اسے پورا پورا یقین تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے دل میں ضرور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ پر ۔۔۔ سیٹھ جی نے کچھ سُننا نہ چاہا اور اس کے سینے میں ایک ہُلّڑ سا مچ گیا۔
سیٹھ کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے کے لیے اس نے اپنے وہ تمام دُکھ جو بیت چکے تھے، گئے گزرے دنوں کی گہری کھائی سے نکال کر اپنے دل میں بھر لئے تھے اور ان تمام زخموں کی جلن، جو مدت ہوئی مٹ چکے تھے، اس نے بڑی مشکل سے اکٹھی کر کے اپنی چھاتی میں جمع کی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنی چیزوں کو کیسے سنبھالے؟
اس کے گھر میں بن بلائے مہمان آگئے ہوتے تو وہ ان سے بڑے روکھے پن سے کہہ سکتا تھا۔ "جاؤ بھئی جاؤ، میرے پاس اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمہیں بٹھا سکوں اور نہ میرے پاس اتنا روپیہ ہے کہ تم سب کی خاطر مدارت کر سکوں۔ "
لیکن یہاں تو قصہ ہی دوسرا تھا۔ اس نے تو اپنے بھولے بھٹکے، دُکھوں کو اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اپنے سینے میں جمع کیا تھا۔ اب بھلا وہ باہر نکل سکتے تھے؟
افراتفری میں اسے کچھ پتہ نہ چلا تھا کہ اس کے سینے میں کتنی چیزیں بھر گئی ہیں۔ پر جُوں جُوں اس نے سوچنا شروع کیا ،وہ پہچاننے لگا کہ فلاں دُکھ فلاں وقت کا ہے اور فلاں درد اسے فلاں وقت پر ہوا تھا اور جب یہ سوچ بچار شروع ہوئی تو حافظے نے بڑھ کر وہ دھند ہٹا دی جو اِن پر لپٹی ہوئی تھی اور کل کے تمام درد آج کی تکلیفیں بن گئے اور اس نے اپنی زندگی کی باسی روٹیاں پھر انگاروں پر سینکنا شروع کر دیں۔
اس نے سوچا، تھوڑے سے وقت میں اس نے بہت کچھ سوچا۔ اس کے گھر کا اندھا لیمپ، کئی بار اس کے پیوند لگے کپڑے ان کھونٹیوں پر لٹک کر پھر اس کے میلے بدن سے چمٹ گئے جو دیوار میں گڑی چمک رہی تھیں۔ کئی بار اسے ان داتا بھگوان کا خیال آیا جو بہت دور نہ جانے کہاں بیٹھا اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے مگر اپنے سامنے سیٹھ کو کرسی پر بیٹھا دیکھ کر، جس کے قلم کی ایک جنبش کچھ کا کچھ کر سکتی تھی، وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ سوچ سکا۔ کئی بار اسے خیال آیا اور وہ سوچنے لگا کہ اسے کیا خیال آیا تھا مگر وہ اس کے پیچھے بھاگ دوڑ نہ کر سکا۔ وہ سخت گھبرا گیا تھا۔ اس نے آج تک اپنے سینے میں اتنی کھلبلی نہیں دیکھی تھی۔
وہ اس کھلبلی پر ابھی تعجب ہی کر رہا تھا کہ مالک مکان نے غصے میں آکر اسے گالی دی۔ گالی۔۔۔ یوں سمجھیے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سِیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اُتر گیا اور اس کے سینے کے اندر جوہلّٹر مچ گیا ،اس کا توکچھ ٹھکانہ ہی نہ تھا، جس طرح کسی گرما گرم جلسے میں کسی شرارت سے بھگڈر مچ جایا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس کے دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ اس نے بہت جتن کئے کہ اس کے وہ دُکھ درد جو اس نے سیٹھ کو دکھانے کے لیے اکٹھے کیے تھے چُپ چاپ رہیں۔ پر کچھ نہ ہو سکا۔ گالی کا سیٹھ کے منہ سے نکلنا تھا کہ تمام بے چین ہو گئے اور اندھا دُھند ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے لگے۔ اب تو وہ یہ نئی تکلیف بالکل نہ سہہ سکا اور اس کی آنکھوں میں جو پہلے ہی سے تپ رہی تھیں، آنسو آگئے جس سے ان کی گرمی اور بھی بڑ گئی اور ان سے دھواں نکلنے لگا۔
اس کے جی میں آیا کہ اس گالی کو جسے وہ بڑی حد تک نگل چکا تھا، سیٹھ کے جھُریاں پڑے چہرے پر قے کر دے مگر وہ اس خیال سے باز آگیا کہ اس کا غرور تو باہر فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ اپولو بندر پر نمک لگی مونگ پھلی بیچنے والے کا غرور۔۔۔ اس کی آنکھیں ہنس رہی تھیں اور ان کے سامنے نمک لگی مونگ پھلی کے وہ تمام دانے جو اس کے گھر میں ایک تھیلے کے اندر برکھا کے باعث گیلے ہو رہے تھے، ناچنے لگے۔
اس کی آنکھیں ہنسیں، اس کا دل بھی ہنسا، یہ سب کچھ ہوا۔ پر وہ کڑواہٹ دُور نہ ہوئی جو اس کے گلے میں سیٹھ کی گالی نے پیدا کر دی تھی۔ یہ کڑواہٹ اگر صرف زبان پر ہوتی تو وہ اسے تُھوک دیتا مگر وہ تو بہت بُری طرح اس کے گلے میں اٹک گئی تھی اور نکالے نہ نکلتی تھی اور پھر ایک عجیب قسم کا دُکھ جو اس گالی نے پیدا کر دیا تھا، اس کی گھبراہٹ کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی آنکھیں جو سیٹھ کے سامنے رونا فضول سمجھتی تھیں، اس کے سینے کے اندر اُتر کر آنسو بہا رہی ہیں جہاں ہر چیز پہلے ہی سے سوگ میں تھی۔
سیٹھ نے اسے پھر گالی دی۔ اتنی ہی موٹی جتنی اس کی چربی بھری گردن تھی اور اسے یوں لگا کر کسی نے اوپر سے اس پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ چہرے کی طرف حفاظت کے لیے بڑھا، پر اس گالی کی ساری گرد اس پر پھیل چکی تھی۔۔۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔۔۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ ایسی حالتوں میں کسی بات کی سُدھ بُدھ نہیں رہا کرتی۔
وہ جب نیچے اُترا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھردی گئی ہیں۔
(باقی آئندہ اقساط میں)