منٹو کے افسانے"نعرہ" کی دوسری قسط
ایک نہیں، دو گالیاں۔۔۔ بار بار دو گالیاں جو سیٹھ نے بالکل پان کی پِیک کے مانند اپنے منہ سے اُگل دی تھیں، اس کے کانوں کے پاس زہریلی بھِڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں اور وہ سخت بے چین ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اس۔۔۔ اس ۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس گڑبڑ کا نام کیا رکھے جو اس کے دل میں اور دماغ میں ان گالیوں نے مچا رکھی تھی۔ وہ کیسے اس تپ کو دور کر سکتا تھا جس میں وہ پُھنکا جا رہا تھا۔ کیسے؟۔۔۔
پر وہ سوچ بچار کے قابل بھی تو نہیں رہا تھا۔ اس کا دماغ تو اس وقت ایک ایسا اکھاڑا بنا ہوا تھا جس میں بہت سے پہلوان کُشتی لڑ رہے ہوں ۔جو خیال بھی وہاں پیدا ہوتا، کسی دوسرے خیال سے ،جو پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتا ،بھڑ جاتا اور وہ کچھ سوچ نہ سکتا۔
چلتے چلتے جب ایکاایکی اس کے دُکھ قے کی صورت میں باہر نکلنے کو تھے، اس کے جی میں آئی۔
جی میں کیا آئی، مجبوری کی حالت میں وہ اس آدمی کو روک کرجو لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس سے گزر رہا تھا، یہ کہنے ہی والا تھا۔ بھیّا میں روگی ہوں۔ مگر جب اس نے اس راہ چلتے آدمی کی شکل دیکھی تو بجلی کا وہ کھمبا جو اس کے پاس ہی زمین میں گڑا تھا، اسے اس آدمی سے کہیں زیادہ حسّاس دکھائی دیا اور جو کچھ وہ اپنے اندر سے باہر نکالنے والا تھا، ایک ایک گھونٹ کر کے پھر نگل گیا۔
فٹ پاتھ میں چوکور پتھر ایک ترتیب کے ساتھ جَڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پتھروں پر چل رہا تھا۔ آج تک کبھی اس نے ان کی سختی محسوس نہ کی تھی مگر آج ان کی سختی اس کے دل تک پہنچ رہی تھی۔ فٹ پاتھ کا ہر ایک پتھر جس پر اس کے قدم پڑ رہے تھے، اس کے دل کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔۔۔ سیٹھ کے پتھر کے مکان سے نکل کر ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ اس کا بند بند ڈھیلا ہو گیا۔
چلتے چلتے اس کی ایک راہ گیر سے ٹکّر ہوئی اور اسے یُوں محسوس ہوا کہ وہ ٹوٹ گیا ہے۔ چنانچہ اس نے جھٹ اس آدمی کی طرح جس کی جھولی سے بیر گر رہے ہوں، اِدھر اُدھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور اپنے آپ کو اکٹھا کر کے ہولے ہولے سے چلنا شروع کیا۔
اس کا دماغ اس کی ٹانگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ چل رہا تھا۔ چنانچہ کبھی کبھی، چلتے چلتے اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا نچلا دھڑ سارے کا سارا بہت پیچھے رہ گیا ہے اور دماغ بہت آگے نکل گیا۔ کئی بار اسے اس خیال سے ٹھہرنا پڑا کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہو جائیں۔
وہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ جس کے اس طرف سڑک پر پوں پوں کرتی موٹروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ گھوڑے، گاڑیاں ، ٹرامیں، بھاری بھر کم ٹرک، لاریاں یہ سب سڑک کی کالی چھاتی پر دندناتی ہوئی چل رہی تھیں۔ ایک شور مچا ہوا تھا، پر اس کے کانوں کو کچھ سنائی نہ دیتا تھا ۔ وہ تو پہلے ہی سے شائیں شائیں کر رہے تھے، جیسے ریل گاڑی کا انجن زائد بھاپ باہر نکال رہا ہے۔
چلتے چلتے ایک لنگڑے کُتے سے اس کی ٹکّر ہوئی۔ کُتے نے اس خیال سے کہ شاید اس کا زخمی پیر کچل دیا گیا ہے، "چاؤں" کِیا اور پرے ہٹ گیا اور وہ سمجھا کہ سیٹھ نے اسے پھر گالی دی ہے۔۔۔ گالی ۔۔۔
گالی ٹھیک اسی طرح اس سے اُلجھ کر رہ گئی تھی جیسے جھاڑی کے کانٹوں میں کوئی کپڑا۔ وہ جتنی کوشش اپنے آپ کو چھڑانے کی کرتا تھا، اتنی ہی زیادہ اس کی روح زخمی ہوتی جا رہی تھی۔
اسے اس نمک لگی مونگ پھلی کا خیال نہیں تھا جو اس کے گھر میں برکھا کے باعث گیلی ہو رہی تھی اور نہ اسے روٹی کپڑے کا خیال تھا۔ اس کی عمر تیس برس کے قریب تھی اور ان تیس برسوں میں ،جن کے پرماتما جانے، کتنے دن ہوتے ہیں، وہ کبھی بھوکا نہ سویا تھا اور نہ کبھی ننگا ہی پھرا تھا۔ اسے صرف اس بات کا دُکھ تھا کہ اسے ہر مہینے کرایہ دینا پڑتا تھا۔ وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرے، اس بکرے جیسی داڑھی والے حکیم کی دوائیوں کے دام دے، شام کو تاڑی کی ایک بوتل کے لیے دونّی پیدا کرے یا اس گنجے سیٹھ کے مکان کے ایک کمرے کا کرایہ ادا کرے؟ مکان اور کرایوں کا فلسفہ اس کی سمجھ سے سدا اُونچا رہا تھا۔ وہ جب بھی دس روپے گِن کر سیٹھ یا اس کے مُنیم کی ہتھیلی پر رکھتا تو سمجھتا کہ زبردستی اس سے یہ رقم چھین لی گئی ہے اور اب اگر وہ پانچ برس تک برابر کرایہ دیتے رہنے کے بعد صرف دو مہینے کا حساب چُکتا نہ کر سکا تو کیا سیٹھ کو اس بات کا اختیار ہو گیا کہ وہ اسے گالی دے؟ سب سے بڑی بات تو یہی تھی جو اسے کھائے جا رہی تھی۔ اسے ان بیس روپوں کی پرواہ نہ تھی جو اسے آج نہیں کل ادا کر دینے تھے۔ وہ ان دو گالیوں کی بابت سوچ رہا تھا جو اِن بیس روپے کے بیچ میں سے نکلی تھیں۔ نہ وہ بیس روپے کا مقروض ہوتا اور نہ سیٹھ کے کٹھالی جیسے منہ سے یہ گندگی باہر نکلتی۔
مان لیا وہ دھنوان تھا۔ اس کے پاس دو بلڈنگیں تھیں۔ جن کے ایک سو چوبیس کمروں کا کرایہ اس کے پاس آتا تھا۔ پر ان ایک سو چوبیس کمروں میں جتنے لوگ رہتے ہیں اس کے غلام تو نہیں اور اگر غلام بھی ہیں تو وہ انہیں گالی کیسے دے سکتا ہے؟
ٹھیک ہے، اسے کرایہ چاہیے، پر میں کہاں سے لاؤں۔ پانچ برس تک اس کو دیتا ہی رہا ہوں۔ جب ہو گا، دے دوں گا۔ پچھلے برس برسات کا سارا پانی ہم پر ٹپکتا رہا۔ پر میں نے اسے کبھی گالی نہ دی، حالانکہ مجھے اس سے کہیں زیادہ ہول ناک گالیاں یاد ہیں۔ میں نے سیٹھ سے ہزار بار کہا کہ سیڑھی کا ڈنڈا ٹوٹ گیا ہے، اسے بنوا دیجئے۔ پر میری ایک نہ سنی گئی۔ میری پھول سی بچی گری۔ اس کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ میں گالیوں کے بجائے اسے بددُعا دے سکتا تھا۔ پر مجھے اس کا دھیان ہی نہیں آیا۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ نہ چُکانے پر میں گالیوں کے قابل ہو گیا۔ اس کو یہ خیال تک نہ آیا کہ اس کے بچے ، اپولو بندر پر میرے تھیلے سے مُٹھّیاں بھربھر کر مونگ پھلی کھاتے ہیں۔
(باقی آئندہ اقساط میں)