منٹو کے افسانے"نعرہ" کی آخری قسط
ٹھیک ہے، لیکن پھر کوئی اور ترکیب بھی تو سمجھ میں آئے۔ جس سے یہ گالیاں دُور دفع ہوں۔۔۔ کیوں نہیں کوئی شخص بڑھ کر اسے دُکھ سے نجات دلانے کی کوشش کرتا؟ کیا وہ ہمدردی کے قابل نہ تھا؟ ہو گا، پر کسی کو اس کے دل کے حال کا کیا پتا تھا۔ وہ کھلی کتاب تھوڑی تھا اور نہ اس نے اپنا دل باہر لٹکا رکھا تھا۔ اندر کی بات کسی کو کیا معلوم؟
نہ معلوم ہو! ۔۔۔ پر ماتما کرے کسی کو معلوم نہ ہو۔۔۔ اگر کسی کو اندر کی بات کا پتہ چل گیا تو کیشولال کھاری سینگ والے کے لیے ڈوب مرنے کی بات تھی۔۔۔ گالیاں سُن کر خاموش رہنا معمولی بات تھی کیا؟
معمولی بات نہیں بہت بڑی بات ہے۔۔۔ہِمالہ پہاڑ جتنی بات ہے۔ اس سے بھی بڑی بات ہے کہ اس کا غرور مٹی میں مل گیا ہے۔ اس کی ذلت ہوئی ہے۔۔۔ اس کی ناک کٹ گئی ہے۔۔۔ اس کا سب کچھ لُٹ گیا ہے۔ چلو بھئی چھُٹی ہوئی۔ اب تو یہ گالیاں اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔۔۔ وہ کمینہ تھا، رذیل تھا، نیچ تھا، گندگی صاف کرنے والا بھنگی تھا، کُتّا تھا۔۔۔ اس کو گالیاں ملنا ہی چاہئے تھیں۔۔۔ نہیں نہیں۔ کسی کی کیا مجال تھی کہ اسے گالیاں دے اور پھر بغیر کسی قصور کے۔ وہ اسے کچاّنہ چبا جاتا۔۔۔ اماں ہٹاؤ، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔۔۔ تم نے تو سیٹھ سے یوں گالیاں سنیں جیسے میٹھی میٹھی بولیاں تھیں۔
میٹھی میٹھی بولیاں تھیں، بڑے مزیدار گھونٹ تھے، چلو یہی سہی۔۔۔ اب تو میرا پیچھا چھوڑ دو، ورنہ سچ کہتا ہوں، دیوانہ ہو جاؤں گا۔ یہ لوگ جو بڑے آرام سے اِدھر سے اُدھر چل رہے ہیں، مَیں ان میں سے ہر ایک کا سر پھوڑ دوں گا۔ بھگوان کی قسم مجھے اب زیادہ تاب نہیں رہی۔ میں ضرور دیوانے کُتے کی طرح سب کو کاٹنا شروع کر دوں گا۔ لوگ مجھے پاگل خانے میں بند کر دیں گے اور میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا، سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا، سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا اور میری رادھا وِدھوا اور میرے بچے اَناتھ ہو جائیں گے۔۔۔ یہ سب کچھ ا س لیے ہو گا کہ میں نے سیٹھ سے دو گالیاں سُنیں اور خاموش رہا ، جیسے میرے منہ میں تالا لگا ہوا تھا۔ میں لُولا، لنگڑا، اپاہج تھا۔۔۔ پرماتما کرے میری ٹانگیں اس موٹر کے نیچے آ کر ٹوٹ جائیں، میرے ہاتھ کٹ جائیں۔ میں مر جاؤں تاکہ یہ بک بک تو ختم ہو۔۔۔ توبہ ۔۔۔ کوئی ٹھکانہ ہے اس دُکھ کا۔ کپڑے پھاڑ کر ننگا ناچنا شروع کر دوں۔۔۔ اس ٹرام کے نیچے سر دے دوں، زور زور سے چِلانا شروع کر دوں۔۔۔۔۔۔ کیا کروں، کیا نہ کروں؟
یہ سوچتے ہوئے اسے ایکاایکی خیال آیا کہ بازار کے بیچ کھڑا ہو جائے اور سب ٹریفک کو روک کر جو اس کی زبان پر آئے بکتا چلا جائے۔ حتیٰ کہ اس کاسینہ سارے کا سارا خالی ہو جائے یا پھر اس کے جی میں آئی کہ کھڑے کھڑے یہیں سے چِلانا شروع کر دے۔ مجھے بچاؤ۔۔۔۔۔۔ مجھے بچاؤ!۔
اتنے میں ایک آگ بجھانے والا انجن سڑک پر ٹن ٹن کرتا آیا اور ادھر اس موڑ میں گم ہو گیا۔ اس کو دیکھ کر وہ اونچی آواز میں کہنے ہی والا تھا۔ ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ میری آگ بجھاتے جاؤ۔ مگر نہ جانے کیوں رُک گیا۔
ایکاایکی اس نے اپنے قدم تیز کر دیئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی سانس رُکنے لگی ہے اور اگر وہ تیز نہ چلے گا تو بہت ممکن ہے کہ وہ پھٹ جائے۔ لیکن جوں ہی اس کی رفتار بڑھی، اس کا دماغ آگ کا ایک چکر سا بن گیا۔ اس چکر میں اس کے سارے پرانے اور نئے خیال ایک ہار کی صورت میں گُندھ گئے۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ، اس کا پتھر کی بلڈنگ میں درخواست لے کر جانا۔۔۔ سات منزلوں کے ایک سو بارہ زینے، سیٹھ کی بھدّی آواز، اس کے گنجے سر پر مسکراتا ہوا بجلی کا لیمپ اور۔۔۔ یہ موٹی گالی۔۔۔ پھر دوسری۔۔۔ اور اس کی خاموشی۔۔۔ یہاں پہنچ کر آگ کے اس چکر میں تڑ تڑ گولیاں سی نکلنا شروع ہو جاتیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کا سینہ چھلنی ہو گیا ہے۔
اس نے اپنے قدم اور تیز کئے اور آگ کا یہ چکر اتنی تیزی سے گھومنا شروع ہوا کہ شعلوں کی ایک بہت بڑی گیند سی بن گئی جو اس کے آگے آگے زمین پر اُچھلنے کُودنے لگی۔ وہ اب دوڑنے لگا۔ لیکن فوراً ہی خیالوں کی بھیڑ بھاڑ میں ایک نیا خیال بلند آواز میں چِلّایا:
تم کیوں بھاگ رہے ہو؟ کس سے بھاگ رہے ہو؟ تم بزدل ہو؟
اس کے قدم آہستہ آہستہ اُٹھنے لگے۔ بریک سی لگ گئی اور وہ ہولے ہولے چلنے لگا۔۔۔ وہ سچ مچ بزدل تھا، بھاگ کیوں رہا تھا؟۔۔۔ اسے تو انتقام لینا تھا۔۔۔ انتقام۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اسے اپنی زبان پر لہو کا نمکین ذائقہ محسوس ہوا اور اس کے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوئی۔۔۔ لہو۔۔۔ لہو۔ اسے آسمان زمین سب لہو ہی میں رنگے ہوئے نظر آنے لگے۔۔۔ لہو۔۔۔ اس وقت اس میں اتنی قوت تھی کہ پتھر کی رگوں میں سے بھی لہو نچوڑ سکتا تھا۔
اس کی آنکھوں میں لال ڈورے اُبھر آئے۔ مُٹھیاں بھِنچ گئیں اور قدموں میں مضبوطی پیدا ہو گئی۔۔۔ اب وہ انتقام پر تُل گیا تھا۔
وہ بڑھا۔
آنے جانے والے لوگوں میں سے تیر کے مانند اپنا راستہ بناتا آگے بڑھتا رہا۔ آگے۔۔۔ آگے۔
جس طرح تیز چلنے والی ریل گاڑی چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑ جایا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ بجلی کے کھمبوں، دکانوں اورلمبے لمبے بازاروں کو اپنے پیچھے چھوڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔ آگے۔۔۔ آگے۔۔۔ بہت آگے!
راستے میں ایک سینما کی رنگین بلڈنگ آئی۔ اس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اس کے پاس سے بے پروا، ہوا کی مانند بڑھ گیا۔
وہ بڑھتا گیا۔
اندر ہی اندر اس نے اپنے ہر ذّرے کو ایک بم بنا لیا تھا تاکہ وقت پر کام آئے۔ مختلف بازاروں سے زہریلے سانپ کی مانند پھنکارتا ہوا وہ اپولوبندر پہنچا۔۔۔ اپولو۔۔۔ گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے بے شمار موٹریں قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔ ان کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھا کہ بہت سے گدھ پَر جوڑے کسی کی لاش کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔ جب اس نے خاموش سمندر کی طرف دیکھا تو اسے یہ ایک لمبی چوڑی لاش معلوم ہوئی۔۔۔ اس سمندر کے اس طرف ایک کونے میں لال لال روشنی کی لکیریں ہولے ہولے بل کھا رہی تھیں۔ یہ ایک عالیشان ہوٹل کی پیشانی کا برقی نام تھا۔ جس کی لال روشنی سمندر کے پانی میں گُدگُدی پیدا کر رہی تھی۔
کیشوّلال کھاری سینگ والا اس عالیشان ہوٹل کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس برقی بورڈ کے عین نیچے قدم گاڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔۔۔ سنگین عمارت کی طرف جس کے روشن کمرے چمک رہے تھے اور ۔۔۔ اس کے حلق سے ایک نعرہ ۔۔۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والا نعرہ، پگھلے ہوئے گرم گرم لاوے کے مانند نکلا۔ ہت تیری۔۔۔!
جتنے کبوتر ہوٹل کی منڈیروں پر اُونگھ رہے تھے، ڈر گئے اور پھڑپھڑانے لگے۔ نعرہ مار کر جب اس نے اپنے قدم زمین سے بڑی مشکل کے ساتھ علیحدہ کئے اور واپس مڑا تو اسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہوٹل کی سنگین عمارت اڑاڑا دھم نیچے گر گئی ہے۔
اور یہ نعرہ سُن کر ایک شخص نے اپنی بیوی سے، جو یہ شور سن کر ڈر گئی تھی، کہا:
پگلا ہے!
(ختم شد)