ملکۂ ترنم نور جہاں کی نذر

نغمہ بھی ہے اداس تو سر بھی ہے بے اماں
رہنے دو کچھ تو نور اندھیروں کے درمیاں
اک عمر جس نے چین دیا اس جہان کو
لینے دو سکھ کا سانس اسے بھی سر جہاں
تیار کون ہے جو مجھے بازوؤں میں لے
اک یہ نوا نہ ہو تو کہو جاؤں میں کہاں
اگلے جہاں سے مجھ کو یہی اختلاف ہے
یہ صورتیں یہ گیت صدائیں کہاں وہاں
یہ ہے ازل سے اور رہے گا یہ تا ابد
تم سے نہ جل سکے گا ترنم کا آشیاں