ملال ہجر نہیں رنج بے رخی بھی نہیں

ملال ہجر نہیں رنج بے رخی بھی نہیں
کہ اعتبار کے قابل تو زندگی بھی نہیں


کروں میں خون تمنا کا کس لیے ماتم
مرے لیے یہ مصیبت کوئی نئی بھی نہیں


میں پھر بھی شام و سحر بے قرار رہتا ہوں
اگرچہ گھر میں کسی چیز کی کمی بھی نہیں


مجھے خبر ہے کہ انجام وصل کیا ہوگا
اسی لیے ترے ملنے کی کچھ خوشی بھی نہیں


وہی ہے سب کی نگاہوں کی طنز کا مرکز
وہ جس مکان کی کھڑکی کبھی کھلی بھی نہیں


ہوئے وہ لوگ ہی شب کے سفر پہ آمادہ
وہ جن کے پاس اسد کوئی روشنی بھی نہیں