مجاز، رومانیت کا شہید

اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے تقریباً پچیس سال شاعری کی۔ اس طویل عرصے کو دیکھتے ہوئے ان کا مجموعۂ کلام بہت مختصر ہے۔ ان کی بہترین نظمیں بیشتر ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان کی ہیں۔ ادھر چار پانچ سال میں انھوں نے مشکل سے کچھ کہا ہوگا۔ خود کہتے تھے کہ شعر کی دیوی مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ اتنا کم سرمایہ لے کر بہت کم لوگ بقائے دوام کے دربار میں داخل ہوئے ہوں گے۔


مجازؔ کو علم و فضل میں نہ تو کوئی کمال حاصل رہا، نہ انھوں نے کسی بڑی تحریک سے عملی دلچسپی لی۔ مذہبی طورپر وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ مگر اس قید میں انھوں نے خاصی آزادی روا رکھی۔ مجاز نہ غیرمعمولی طالب علم تھے نہ دنیوی اعتبار سے کامیاب ثابت ہوئے۔ آنے والی نسلوں کو شاید اس بات پر حیرت ہوگی کہ مجازؔ اپنے زمانے میں کیوں اس قدر محبوب تھے۔ شراب نے مجاز کو کہیں کا نہ رکھا۔ ریاضؔ نے تو رسمی طور پر خمریات کا یہ شعر کہا تھا،


اچھی پی لی خراب پی لی
جیسی پائی شراب پی لی


مگر مجازؔ نے اس پر برابر عمل کیا، اسی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوئی۔ اسی نے ان کو دیوانگی کی حد تک پہنچا دیا۔ اسی نے بالآخر ان کی جان لی۔ مرنے کے پانچ مہینے پہلے مجازؔ میرے ساتھ کشمیر میں تھے۔ کشمیر کے دل کش مناظر کو دیکھ کر وہ شخص بھی جو جمالیاتی ذوق سے بالکل عاری ہو، کچھ دیر کے لیے شاعر بن جاتا ہے۔ مجازؔ ان سے بھی یونہی گزر گئے۔ کبھی کبھار ان کی فطری زندہ دلی عود کر آتی تھی اور بس، مگر مجازؔ کی محبوبیت اور مقبولیت ان سب باتوں کے باوجود کسی وقت ماند نہیں ہوئی۔ مجاز کی حالت پر افسوس ہوتا تھا۔ دل کڑھتا تھا۔ کبھی کبھی جھنجھلاہٹ بھی ہوتی تھی مگر ان پر غصہ کبھی نہیں آیا۔ آبھی نہیں سکتا تھا۔


مجازؔ مرنے کے وقت پینتالیس چھیالیس سال کے تھے۔ میں انھیں ۱۹۲۹ء سے جانتا تھا۔ جب وہ اور جذبیؔ جو اس وقت ملالؔ تخلص کرتے تھے فرسٹ ایر سائنس میں سینٹ جانس کالج آگرہ میں داخل ہوئے، میں ان سے ایک سال آگے تھا۔ کالج کے مشاعروں میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ غالباً ۱۹۳۱ء میں مجازؔ کو ایک انعامی مقابلے میں پہلا انعام بھی ملا تھا۔ مجازؔ کو اس زمانے میں ٹینس سے خاص دل چسپی تھی اور سکنڈنیٹ کے ممبر ہو گئے تھے۔ فانیؔ اور میکشؔ اکبر آبادی سے اسی زمانے میں ان کا ربط و ضبط بڑھا۔ فانیؔ نے ان کی چند غزلوں پر اصلاح بھی دی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ذوق ہی کو رہبر بنایا۔ جب ۱۹۳۲ء میں ایم اے کرنے علی گڑھ آیا تو مجازؔ یہاں سال بھر پہلے سے موجود تھے۔ سائنس ان سے نہ چلی اس لیے انھوں نے آرٹ میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۵ء میں بی اے کر لیا۔ انگریزی اور فلسفہ کے علاوہ ایک مضمون اور لیا تھا جو اس وقت ذہن میں نہیں۔


اس زمانے میں ان کا زیادہ وقت دوستوں کے کمروں پر گزرتا تھا۔ ان میں جاں نثاراخترؔ، اختر امام اور حامد جو ٹینس کے اچھے کھلاڑی تھے، یاد آتے ہیں۔ دسمبر ۱۹۳۲ء میں انجمن حدیقۃ الشعر کا سالانہ مشاعرہ ہوا تھا جس کی صدارت سرراس مسعود وائس چانسلر نے کی تھی اور جس میں مولانا حسرتؔ، اصغرؔ گونڈوی اور حفیظ جالندھری بھی شریک ہوئے تھے۔ طلبا کے لیے اس میں نظم کا ایک عنوان ’’صبح بہار‘‘ رکھا گیا تھا۔ مجازؔکی نظم پر شروع میں حسب معمول ہوٹنگ ہوئی مگر بعد میں اس کی رنگینی اور دل کشی اور پڑھنے والے کے پرسوز ترنم نے داد بھی حاصل کی تھی۔ یہ مجاز کا علی گڑھ سے پہلا تعارف تھا۔


جاں نثار اختر سے سب سے پہلے مجھے مجازؔ نے ہی ملایا تھا۔ علی گڑھ میگزین کی ادارت کے لیے اس کے نگراں خواجہ منظور حسین صاحب سے انھوں نے ملنے پر زور دیا تھا۔ میری ادارت کے زمانے میں مجازؔ کی نظم ’’نمائش‘‘ ایک غزل اور انقلاب اسی میگزین میں چھپیں۔ اس زمانے میں بھی مجازؔ ایک مخلص دوست اور ایک زندہ دل رفیق کی حیثیت سے ممتاز تھے۔ نوجوان طلبہ کا محبوب مشغلہ اسٹیشن کی سیر یا نمائش کے زمانے میں نمائش کے چکر تھے۔ خریداری سے کوئی مطلب نہ تھا۔ ذوقِ نظر کی تسکین کافی تھی۔ نمائش اس زمانے کے تند و تیز اور والہانہ جذبات کی یادگار ہے۔


اسی زمانے میں علی گڑھ میں نئے خیالات کی رَو شروع ہوئی۔ ڈاکٹر اشرف یورپ سے واپس آ گئے۔ اخترؔ رائے پوری بی اے کرنے کے لیے آفتاب ہوسٹل میں مقیم تھے۔ وہیں سبط حسن بھی تھے۔ اختر رائے پوری نے اپنا مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ اسی زمانے میں لکھا تھا، جب وہ رشید صاحب کے یہاں مقیم تھے۔ سبطِ حسن کے بعض ترجمے اور حیات اللہ انصاری کی کہانیاں بھی میں نے علی گڑھ میگزین میں شائع کی تھیں۔ سجاد ظہیر آکسفورڈ میں ایک طویل عرصے تک قیام کرنے کے بعد علی گڑھ بھی آئے تھے۔ ’انگارے‘ شائع ہوتے ہی ضبط ہو چکی تھی، میں نے میگزین میں اس پر سخت تنقید کی۔ خواجہ منظور حسین صاحب نگراں تھے۔ وہ انگارے کو بعض ادبی تجربات کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ میرا مضمون انھیں پسند نہ آیا مگر انھوں نے اس پر احتساب نہ کیا۔ یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ نئے خیالات کی اس رو کا اثر مجاز پر بھی ہوا اور نمائش اور صبح بہار کا لکھنے والا انقلاب کا نقیب بن گیا۔


جب ۱۹۳۵ء میں آل انڈیا ریڈیو کا قیام وجود میں آیا تو ایک انگریز فیلڈن کا تقرر بحیثیت ڈائریکٹر ہوا۔ یہ بڑا غیر معمولی آدمی تھا، سرکاری اور دفتری نظام سے سخت بیزار اور اہل علم کا بڑا قدرداں۔ ایک دفعہ لاہور میں تھا۔ صوبے کے گورنر سے مل چکا تھا اور اقبالؔ سے ملنے جا رہا تھا۔ اپنے ایک ملاقاتی سے کہنے لگا کہ میں لاہور کے سب سے چھوٹے آدمی سے مل کر آرہا ہوں اور سب سے بڑے آدمی سے ملنے جا رہا ہوں۔ اس نے ریڈیو میں تقررات کرنے کے لیے رشید احمد صدیقی صاحب کو علی گڑھ سے اور پروفیسر بخاری کو لاہور سے بلایا۔ ابتدائی تقررات میں زیڈ اے بخاری، آغا اشرف اور مجازؔ لے گئے۔ مجازؔ کے سپرد ریڈیو کے رسالے آواز کی ادارت ہوئی۔


پروفیسر بخاری کچھ عرصے بعد بعد فیلڈن کے نائب کی حیثیت سے دہلی آ گئے۔ ان میں اور دہلی والوں میں چشمک شروع ہوئی۔ آغا اشرف نے مجازؔ کو ملا لیا۔ آغا اشرف کا تو کچھ نہ بگڑا، بخاری نے ان کا تنزل کر دیا۔ مجازؔ کو علاحدہ کر دیا گیا۔ رشید صاحب نے بخاری کو سمجھایا مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ اسی زمانے میں مجازؔ ادبی حلقوں میں خاصے مقبول ہو چکے تھے، انہیں یہ غلط فہمی ہو چکی تھی ادبی اہمیت کی بنا پر ملازمت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ اشرف صاحب نکل گئے۔ غریب مجاز اپنی سادہ لوحی کا شکار ہو گیا۔


۱۹۳۶ء میں علی گڑھ میں ایک اردو کانفرنس ہوئی۔ مولوی عبد الحق صاحب انجمن کا دفتر دہلی منتقل کرنا چاہتے تھے اور انجمن کے کام کو پھیلانا اور بڑھا نا چاہتے تھے۔ یہ بڑا شاندار اجتماع تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجازؔ آئے تو دہلی کی ملازمت ختم ہو چکی تھی۔ استفسار حال پر انہوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا،


اگر لٹ گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں


اس کانفرنس کے دوران میں یونین میں معزز مہمانوں کا خیر مقدم تھا۔ پنڈت کیفیؔ نے ’اردو ہماری زبان‘ کے نام سے ایک مقالہ پڑھا۔ پنڈٹ کیفیؔ کی آواز پست تھی، مائیک کا رواج اس وقت تک نہ تھا، ہال میں خوب شور ہوا، غرض جوں توں کر کے مقالہ ختم ہوا تو صدر نے اعلان کیا کہ اب اسرارالحق مجازؔ ایک نظم سنائیں گے۔ مجازؔ نے اپنی دلنشیں پرسوز آواز میں ’نذرِ علی گڑھ‘ شروع کی۔ مجمع پر ایک بے خودی سی چھا گئی، لوگ جھوم جھوم اٹھے جب وہ اس شعر پر پہنچے،


آ آ کے ہزاروں بار یہاں خود آگ بھی ہم نے لگائی ہے
پھر سارے جہاں نے دیکھا ہے یہ آگ ہمیں نے بجھائی ہے


تو ہر طرف سے بے اختیار نعرہ ہائے تحسین بلند ہوئے۔ ڈائس پر ڈاکٹر ذاکر حسین، عبد الرحمٰن صدیقی اور مولوی عبد الحق صاحب تشریف فرما تھے۔ ذاکر صاحب نے بے ساختہ کہا کہ مجاز صاحب پھر پڑھئے۔ اس زمانے میں علی گڑھ کے ارباب حل و عقد اولڈ بوائز پر یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ خلافت کے زمانے کی طرح پھر علی گڑھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ مجازؔ کے شعر میں اس کا جواب بھی تھا۔


یہ زمانہ مجازؔ کی شاعری کا بہترین زمانہ تھا۔ ان کی مقبولیت اپنے شباب پر تھی۔ عصمت چغتائی نے اس کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔ مجازؔ میں قوت ارادی کی کمی شروع سے تھی۔ دوستوں کی واہ واہ، حسین خواتین کی داد، مشاعروں میں مقبولیت نے ایک نشے کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اسی زمانے میں شراب کا شغل بھی ہونے لگا۔ مجازؔ علی گڑھ سے لکھنؤ پہنچے اور کئی سال وہاں قیام رہا۔ جو ش سے ربط و ضبط شروع ہوا۔ یہ اکثر جوشؔ کے ساتھ دیکھے جانے لگے۔ جوشؔ کا فرض تھا کہ مجاز کو بہکنے نہ دیتے مگر قبلۂ رندانِ جہاں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کب تھا۔ کچھ زمانہ اسی طرح گزرا۔ اب تک دل پر جو زخم آئے تھے وہ ذرا ہلکے تھے مگر دہلی میں ایک زخم ایسا کاری لگا کہ اس کی چوٹ ساری عمر نہ گئی۔ شروع میں دل نوازی اور لطف و کرم سب کچھ تھا۔ مگر مجاز کچھ اس سے زیادہ چاہتے تھے۔ آخر مایوسی ہوئی مگر مجازؔ کی خوبی یہ تھی کہ افسردگی کے باوجود لہجے میں تلخی نہ آئی۔


لکھنؤ کے قیام کے زمانہ میں جوش، سجاد ظہیر، سردار جعفری، سبط حسن، حیات اللہ انصاری، ڈاکٹر عبد العلیم، احمد علی اور احتشام حسین کا ساتھ رہا۔ ان میں سوائے جوش کے شاعری کسی اور کا اوڑھنا بچھونا نہ تھا۔ ان سب کا ایک سنجیدہ مقصد تھا۔ نیا ادب کی ادارت میں مجازؔ بھی شریک تھے۔ یہ پرچہ ترقی پسند تحریک کا نقیب تھا۔ مجازؔ کا تعلق اس سے ذہنی زیادہ تھا، عملی کم۔ پھر لکھنؤ سے اخبار ہندوستان نکلا۔ اس میں ’اندھیری رات کا مسافر‘ اور سرمایہ داری جیسی نظمیں شروع ہوئیں۔ ساقی کے سالنامے میں آوارہ نکلی۔


ترقی پسندوں میں اس وقت ایک باغیانہ جوش تھا۔ انقلاب کا ایک رومانی اور طفلانہ تصور تھا۔ ماضی کے شان دار سرمائے سے یکسر بغاوت تھی۔ تہذیب و اخلاق فرسودہ تصور کیے جانے لگے تھے۔ مجازؔ پر ان خیالات کا گہرا اثر ہوا۔ قدیم شعراء سے واقفیت اور ابتدائی تعلیم و تربیت نے انھیں یکسر باغی ہونے سے بچا لیا۔ نعرہ بازی اور سیاسی پروپیگنڈا ان کے یہاں بھی ہے مگر بہت کم۔ جوشؔ سے وہ متاثر ضرور ہیں مگر ان کے مقلد نہیں۔ فیضؔ نے ٹھیک کہا ہے کہ وہ انقلاب کے ڈھنڈورچی نہیں۔ اس دور کی سب سے اچھی نظم ’آوارہ‘ ہے۔ یہ ایک نسل کے درد و داغ کی کہانی ہے۔ اس کی آرزو اور جستجو، اس کی محرومی اور سرشاری کی علامت ہے۔ یہاں ذاتی تجربات ایک درد کی داستان بن گئے ہیں۔


۱۹۴۲ء تک مجازؔ کی سرشاری کا دور رہا۔ ا س کے بعد یہ نشہ اترنے لگا۔ زندگی کے حقائق نے انتقام لیا۔ دوست جو شروع میں دل کھول کر پذیرائی کرتے تھے، کچھ کنی کاٹنے لگے۔ مجازؔ اب ایک طفیلی تھے اور شاعری سے بہرحال ذہن کی آگ بجھے تو تو بجھے پیٹ کی آگ تو نہیں بجھتی۔ چنانچہ تنگ آکر نوکری کی جستجو کی۔ بالآخر ہارڈنگ لائبریری دہلی میں ایک جگہ مل گئی۔ ایک طرف مشاعروں کی مقبولیت اور اونچے اونچے گھرانوں کی واہ واہ تھی، دوسری طرف ایک کلرک کی زندگی کے مصائب۔ مجازؔ بے چارے کا کیا قصور۔ بیک وقت آسمان پر پرواز اور وہاں سے فوراً دھرتی پر پٹخ دیا جانا، پھر آسمان کی سیر اور پھر سنگلاخ حقائق کا بوجھ، ایک نازک طبع کمزدور دل کا نوجوان جس کے دل پر کتنے ہی زخم تھے اور جس کی حیب خالی تھی، مگر جو تہذیب اور شرافت کے ایک معیار کو فراموش نہ کر سکتا تھا، کیسے برداشت کرتا۔


چنانچہ خلل دماغ شروع ہوا، باتیں اور بے تکان باتیں کرنے کا مرض پیدا ہو گیا۔ ان میں کچھ اپنی تعریف تھی، کچھ لطیفے تھے، کچھ شعر و ادب پر الٹی سیدھی باتیں تھیں۔ بارے نینی تال کے قیام سے طبیعت کچھ سنبھلی۔ طبیعت میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ یہ فکر ہوئی کہ ’’روٹی تو کسی طرح کما کھائے مچھندر۔‘‘ چنانچہ بمبئی کا رخ کیا۔ فلمی گانوں سے بہت سے شعراء اچھا خاصا کما لیتے تھے مگر مجازؔ اس دنیا کی کاروباری زندگی اور زمانہ سازی کے لیے نہ بنے تھے۔ چنانچہ وہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس عالم میں شراب ایک پناہ بن گئی۔ اب مجازؔ بالکل رند خراباتی بن گئے۔ مشاعروں میں آتے تو اکثر بدمست ہوتے۔ جو لوگ شعر سننے آتے تھے، انھیں بدمستی کے مظاہرے بھی سہنے پڑتے مگر وہ طبعاً اتنے مخلص، نیک، محبت کرنے والے اور وضع دار تھے کہ ان کی بدمستی سے انھیں کو نقصان پہنچا۔ انھوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔


۱۹۳۶ء میں مجازؔ علی گڑھ سے لکھنؤ چلے گئے تھے۔ میں ۱۹۴۵ء تک علی گڑھ میں رہا۔ ڈیڑھ سال کے لیے رام پور گیا تھا۔ وہاں سے ۱۹۴۶ء کے وسط میں لکھنؤ پہنچا۔ اتنے عرصے میں مجازؔ سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد لکھنو میں اکثر ملاقات ہوتی۔ وہ کافی ہاؤس میں خاص پابندی سے آتے تھے۔ میں کبھی کبھار پہنچتا تھا۔ یونیورسٹی کے ادبی جلسوں میں طلباء مجازؔ کو بڑے شوق سے بلاتے اور وہ ان کی دعوت کو کبھی رد نہ کرتے۔ ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد جو واقعات رونما ہوئے، ان کا اثر مجاز پر بھی ہوا۔ انہوں نے تو آزادی کو ہر خواب کی تعبیر سمجھا اور نہ اسے جھوٹی آزادی قرار دیا۔ جشن آزادی میں کہتے ہیں،


یہ انقلاب کا مژدہ ہے انقلاب نہیں
یہ آفتاب کا پرتو ہے آفتاب نہیں
وہ جس کی تاب و توانائی کا جواب نہیں
ابھی وہ سعی جنوں خیز کامیاب نہیں


یہ انتہا نہیں آغازِ کار مرداں ہے


وہ بڑے درد سے پوچھتے ہیں،
سبزۂ و برگ و لالۂ دسر و سمن کو کیا ہوا
سا را چمن اداس ہے ہائے چمن کو کیا ہوا


مگر اب مجازؔ بہت کم کہنے لگے تھے۔ شراب نے ان کی صحت تباہ کر رکھی تھی۔ ۱۹۵۰ء میں اپنی غنودگی سے کچھ چونکے اور ’فکر‘ جیسی نظم اور ’جنون عشق ابھی کم نہیں ہے‘ جیسی غزل کہی۔ اس کے بعد وہ خاصے سنبھلے ہوئے تھے۔ انہیں یہ احساس ہو چلا تھا کہ کوئی سنجیدہ کام کرنا چاہیے۔ اردو میں ایم اے کرنے کا ارادہ تھا۔ ان کے سارے احباب کو مسرت تھی کہ اب مجازؔ راہِ اعتدال پر آرہے ہیں مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اجمیر اور دہلی کے مشاعروں میں اور وہاں کی رنگین محفلوں میں شرکت کے بعد ان کا دماغی توازن بگڑ گیا اور انہیں ان کے اعزا نے رانچی پہنچا دیا۔


رانچی میں تقریباً چھ مہینے رہنے کے بعد آئے تو بالکل ٹھیک تھے۔ سہیل عظیم آبادی ان کے ساتھ تھے۔ مجھ سے ملنے آئے تو کہنے لگے، ’’سرور صاحب! اب کی رانچی میں میں نے ایک ریسرچ کی ہے۔ شراب سے نشہ نہیں ہوتا آدمی پاگل ہو جاتا ہے۔‘‘


شراب بالکل چھوڑ دی تھی۔ ان کے غیر ذمہ دار دوست اصرار بھی کرتے تو معذرت کر دیتے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی بہن صفیہ کا ایک طویل علالت کے بعد انتقال ہوا۔ مجازؔ پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔ ہفتوں گھر سے باہر نہ نکلے۔ صفیہ کے بچوں کا دل بہلاتے رہتے تھے مگر چند مہینے کے بعد پھر شراب کی کشش غالب آئی اور اب کی وہ اس میں بالکل غرق ہوگئے۔


جولائی 1955ء میں ریڈیو سری نگر کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے میں بھی گیا اور مجازؔ بھی۔ دوستوں نے مجاز ؔکی اس طرح دیکھ بھال کی جیسے کسی بہت قیمتی اور نازک چیز کی۔ ہم لوگ انہیں گلمرگ اور سری نگر کے شاہی باغ دکھانے لے گئے تھے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہ ہوتا تھا۔ نشاط اور شالامار میں بکثرت فوارے ہیں۔ ان فواروں میں پانی اتنے زور سے چلتا ہے اگر کوئی لیموں فوارے کے منہ پر دیا جائے تو کچھ دیر کے لئے پانی کی زد سے ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ایک دوست دوست یہ کھیل کر رہے تھے کہ ایک پنجابی عورت نے کہا، ’’اللہ دی قدرت ہے۔‘‘ مجاز کو اس جملے نے بہت محظوظ کیا۔ شالامار اور نشاط کے تاثرات کا حاصل مجازؔ کے نزدیک یہ لطیفہ تھا۔


مجازؔ سے آخری ملاقات نومبر کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ میں علی گڑھ آنے والا تھا۔ ایک رخصتی دعوت میں مجاز بھی تھے، کہنے لگے، ’’سرور صاحب! یہ بہت اچھا ہے کہ آپ علی گڑھ جا رہے ہیں، وہاں جو بات ہے کہیں نہیں۔ میں بھی آؤں گا، مجھےنذر علی گڑھ بھی سننا ہے جسے یونین والوں نے اپنا ترانہ بنایا ہے۔ ذرا یہ طلبہ کا اردو کنونشن ہو لے تو میں بھی علی گڑھ کا قصد کروں۔‘‘ طلبہ کنونشن ہوا۔ مشاعرے میں مجازؔ نے بڑے جوش سے اپنا کلام سنایا، دوسرے دن اتنی شراب پی کہ ان کے دماغ کی رگیں پھٹ گئیں۔ علی گڑھ آنے سے پہلے وہ دوسری دنیا میں پہنچ گئے۔ یہ ہے اردو کے کیٹس کا المیہ۔


مجازؔ کی شخصیت کے متعلق بھی اپنے تاثرات بیان کردوں۔ مجازؔ سر تا پا شاعر تھا۔ خوابوں کی دنیا کا رہنے والا۔ زندگی کے تلخ حقائق کا علاج مجبوراً شراب میں ڈھونڈتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت نے اسے شرافت، تہذیب، حسن معاشرت کے کچھ معیار دیے تھے۔ طبیعت میں اتنی مضبوطی نہ تھی، ان کی خاطر یا ان کے معیاروں کی خاطر جو ایک علمی و ادبی تحریک سے وابستگی کی وجہ سے اس نے قبول کر لیے تھے، وہ ریاض کرتا۔ وہ رند تھا۔ اس میں عاشق کا ولولہ تھا۔ مجاہد کے کردار کی صلابت نہ تھی، اس کی ابتدائی تربیت نے جو نقش دل میں بٹھا دیے تھے، انہیں وہ محو نہ کر سکا۔ نئے رنگ کا جو نشہ چڑھ گیا تھا، وہ اتر نہ سکا، اس کشمکش نے اسے جہاد زندگی میں اپنا راستہ نکالنے کے بجائے ناکامی ونا مرادی کے راستے پر لگا دیا مگر اس کے کردار کی خوبی یہ ہے کہ مردم بیزار، تلخ یا قنوطی کبھی نہیں ہوا۔ پیہم ناکامیوں کو جھیلنے یا بھلانے کی کوشش کرتا رہا۔ کبھی لطیفوں میں، کبھی شراب میں، اس کے دو تین لطیفے مجھ سے سنئے جو میرے سامنے ہیں۔


ایک دفعہ مجازؔ اور جذبیؔ لکھنؤ میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دور کے ایک مشہور شاعر ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ سرورؔ صاحب! سوچتا ہوں شادی کر لوں مجھے تعجب ہوا۔ میں انہیں شادی شدہ سمجھتا تھا پھر کہنے لگے اور سوچتا ہوں کسی بیوہ سے کروں۔ اب تک یہ باتیں صرف میں سن رہا تھا کیونکہ مجازؔ اور جذبیؔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی مزے دار گفتگو میں دوسرے شریک نہ ہوں، چنانچہ میں نے مجازؔ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاحب شادی کرنے والے ہیں اور کسی بیوہ سے شادی کرنے کا خیال ہے۔‘‘ مجازنے بے ساختہ کہا، ’’حضرت آپ سوچیے نہیں کر ہی لیجئے بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد وہ ہو ہی جائے گی۔‘‘


سلام مچھلی شہری کو ایک زمانے میں لمبے لمبے منظوم خط لکھنے کی دھن تھی، سجاد ظہیر اور کرشن چندر کو لکھ چکے تھے۔ کافی ہاؤس میں ایک دفعہ اسی کا تذکرہ تھا۔ ایک نہایت مختصر قسم کے آدمی تھے بھونیشور (Bhuneshwar)، خدا جانے اب کہاں ہیں۔ ہندی کے بہت اچھے لیکھک، اردو بھی خوب جانتے تھے۔ کسی کو خاطر میں کم لاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سلامؔ صاحب! آپ میرے نام خط کب لکھ رہے ہیں۔ مجازؔ نے کہا، تمہیں اتنا لمبا خط کیا لکھیں گے۔ ایک پوسٹ کارڈ ڈال دیں گے۔


بقرعید کے موقع پر لکھنؤ ریڈیو سے ایک چھوٹا سا مشاعرہ تھا۔ مجازؔ نے عرصے سے کچھ نہ کہا تھا۔ مشاعرے کے دن ان سے پوچھا۔ کہو بھائی آج تو تمہاری قربانی ہے، کہنے لگے، سرورؔ صاحب! قربانی نہیں جھٹکا کہئے۔ آخر میں مجازؔ کا یہ یہ رنگ بہت ماند ہو گیا تھا مگر خاکستر میں سے کبھی کبھی چنگاریاں نکل ہی آتی تھیں۔


مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔ ایک کی برائی دوسرے سے کرنا اس کا شعار نہ تھا۔ وہ سب کا دوست تھا، صرف اپنا دشمن تھا۔ ماحول نے اس کے ساتھ بے حسی اور بے پروائی برتی مگر اس نے ماحول کی شکایت بھی نہیں کی۔ اس میں بڑا ظرف تھا۔ اس نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔


ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لئے میرے منتظر تھے۔ چنانچہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔


پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں میں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔ رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔ پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔


مجازؔ کے پاس زندگی اور ادب کا ایک خاصا واضح تصور تھا۔ اس نے نہ تو مطالعہ سے اسے جلا دی، نہ زندگی کی آگ میں کود کر اسے گلزار بنایا۔ وہ بڑے حسین خواب دیکھتا تھا۔ بعض بڑے حقائق کا بھی اسے احساس تھا مگر خوابوں کے اس رسیا کوجب حقائق نے چور چور کر دیا تو اس نے پلٹ کر کوئی وار نہیں کیا۔ خاموشی سے سپر ڈال دی، اسی وجہ سے اسے رومانیت کا شہید کہتا ہوں ۔


عام طور پر رومانیت کے معنی حدیث دلبری کے لیے جاتے ہیں، در اصل یہ تخیل پرستی ہے۔ یوں تو ادب زندگی کی تخیلی ترجمانی ہے مگر جب تخیل کی لے اتنی بڑھ جائے کہ حقائق یا عقل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو رومانیت ظہور میں آتی ہے۔ اردو شاعری میں رومانیت کی لہر سب سے پہلے ادب لطیف کے علم برداروں میں ملتی ہے۔ اس کے بعد شیرانی کے یہاں۔ اختر شیرانی اور مجاز میں خاصی مماثلت ہے مگر اختر کے یہاں عنفوانِ شاب کے عشق کا سوز و ساز اور درد و کرب ہے۔ محبوب کی تصویر سینے سے لگا کر مر جانے کا ولولہ ہے۔ مجاز کی رومانیت میں انقلاب کے خواب بھی شامل ہیں۔ مجازؔ کی رومانیت کچھ تو جوشؔ کی طرح باغیانہ گھن گرج میں ظاہر ہوتی ہے مگر اس میں بھی وہ اپنے آہنگ سے نہیں ہٹتے۔ دوسرے وہ بعض سماجی حقائق کا بھی گہرا احساس رکھتے ہیں اور انہیں شعر میں بیان کر سکتے ہیں۔ پھر مجازؔ کے لہجے میں اخترؔ شیرانی کی سپردگی اور والہانہ پن کے ساتھ ساتھ نغمگی اور شیرینی کچھ زیادہ ہے۔


جوش کی شوکت و جزالت میں کرختگی کا احساس ہوتا ہے اور ان کے یہاں باوجود غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کے ناہمواری بھی ہے۔ مجاز کے یہاں ہم آہنگی ہے۔ جوشؔ خلوت میں بھی بہت اونچی آواز سے باتیں کرتے ہیں لیکن مجازؔ بھری محفل میں بھی دل نشیں نرمی سے اچھی بات کہہ دیتا ہے۔


دراصل مجازؔ کی شاعری پر بے لاگ تبصرہ ابھی ممکن نہیں ہے، اس لیے میں اس کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ہاں مجاز کی ادبی اہمیت کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔


پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی نسل میں مجاز کے یہاں کلاسیکل شعرا کے انداز بیان کی باوقار سادگی ملتی ہے۔ دوسرے اس کے یہاں الفاظ کی صحت اور زبان کی نرمی اور نزاکت کا احساس بھی ہم عصروں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ مجازؔ نے د لی کی فضا اور فانیؔ کی صحبت سے خاموش اثر لیا ہے۔ یہ اثر اس کے یہاں بڑی خوبی سے ظاہر ہوتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ مجازؔ کے یہاں استعارے اور تشبیہات ایک خلاقانہ ذہن ظاہر کرتے ہیں۔ مجاز کی شروع کی نظمیں جیسے ’نمائش‘، ’نذر خالدہ‘، ’انقلاب‘ اور ’رات اور ریل‘ اسی خصوصیت کی وجہ سے قابل قدر بن جاتی ہیں۔


نمائش میں ایک رنگین فضا کی مصوری ادبی صناعی کا حسن رکھتی ہے۔ انقلاب میں بچپن ہے مگر اس کے باوجود انداز بیان میں زور اور کیفیت ہے۔ رات اور ریل حسن کاری کی اچھی مثال ہے۔ اس میں ارتقا اور سماج کے لفظ تو تعویذ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مگر نظم میں بڑے شگفتہ اور نرم الفاظ میں ریل کی رفتار اور اس کی نت نئی فضا کو قلم بند کر دیا ہے۔ ’نذر خالدہ ‘بھی مجاز کی کامیاب نظموں میں سے ہے۔ اس میں خالدہ خانم کی پوری شخصیت کے سمندر کو مجازؔ نے مصرعے کے کوزے میں بند کرلیا ہے۔


روح عشرت گاہِ ساحل، جان طوفانِ عظیم


اسی طرح رات اور ریل میں یہ شعر دیکھیے،


تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرودِ دل نشیں
آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی


نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی


رعشہ براندام کرتی انجم شب تاب کو
آشیاں میں طائرِ وحشی کو چونکاتی ہوئی


ڈالتی بے حس چٹانوں پر حقارت کی نظر
کوہ پر ہنستی فلک کو آنکھ دکھلاتی ہوئی


مجازؔ کی چوتھی خصوصیت یہ ہےکہ اس نے نوجوانوں کے عزم، سرفروشی، ولولۂ حیات، قلندرانہ آن بان، جرأت رندانہ اور شوق بے باک کو حسن کے غازے کے طور پر نہیں، چمنِ حیات کی حنا بندی کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ ایک طرف وہ نوجوانوں میں ایک جوش مجاہدانہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف خواتین کو بھی رزم گاہ حیات میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔ وہ نوجوانوں سے کہتا ہے،


جو ہوسکے ہمیں پامال کرکے آگے بڑھ
نہ ہوسکے تو ہمارا جواب پیدا کر


بہے زمیں پہ جو میرا لہو تو غم مت کر
اسی زمیں سے مہکتے گلاب پیدا کر


تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہوسکے تو ابھی انقلاب پیدا کر


نوجوان خاتون سے کہتا ہے،
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا


ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا


پردہ اور عصمت میں ارشاد ہوتاہے،


جو ظاہر نہ ہو وہ لطافت نہیں ہے
جو پنہاں رہے وہ صداقت نہیں ہے


یہ فطرت نہیں ہے مشقت نہیں ہے
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے


قسم شوخیِ عشقِ سنجو گتا کی
قسم جون کے عزمِ صبر آزما کی


قسم طاہرہ کی، قسم خالدہ کی
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے


مجازؔ در اصل پرستارِ حسن ہے۔ یوں تو وہ لیلائے انقلاب کا بھی مجنوں ہے مگر حسن کی ہر ادا کا رمزشناس ہے۔ اس کی پرستش میں عاشق کا جذبہ و جنون ہے۔ حسن اس کے لیے سب کچھ ہے۔ اس نے حسن کو ہر عالم میں دیکھا، ڈھونڈا اور چاہا اور پایا ہے۔ اس بصیرت نے اس کے اشعار میں ایک سرمستی اور کیفیت بھر دی ہے۔ الفاظ میں جادو پیدا کردیا ہے اور اشعار کو پگھلا ہوا لاوا بنا دیتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں،


ہر سانس میں احساسِ فراواں کی کہانی
خاموشیِ محجوب میں ایک سیلِ معانی


جذبات کے طوفاں میں ہے دوشیزہ جوانی
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ


مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زورِ شباب اور زیادہ


وہ اک مرمریں حور خلدِ بریں کی
وہ تعبیر آذر کے خوابِ حسیں کی


وہ تسکین دل تھی وہ سکون نظر تھی
نگار شفق تھی، جمالِ سحر تھی


بیمار کے قریب بصد شانِ احتیاط
دل داریِ نسیمِ بہاراں لیے ہوئے


رخسار پر لطیف سی اک موجِ سرخوشی
لب پرہنسی کا نرم سا طوفاں لیے ہوئے


لبِ گل رنگ و حسیں، جسم گداز و سیمیں
شوخیِ برق لیے، لرزشِ سیماب لیے


نرم صوفے گود میں فردوس رعنائی لیے
زلف کے غم مرمریں شانوں کی برنائی لیے


قہقہے جن میں صبا کا راگ سیاروں کے گیت
نقرئی نے کی صدا جنت کے مہ پاروں کے گیت


بام و در پر اک تبسم تھا فضا گل رنگ تھی
جنبش مژگاں دھڑکتے دل سے ہم آہنگ تھی


میرے نزدیک مجاز کی بہتیریں نظمیں آوارہ، خواب سحر اور نذر علی گڑھ ہیں، آوارہ میں رومانیت کی پوری داستان درد آگئی ہے اور اس داستان میں ایک پوری نسل کے افسانہ و افسوں کا المیہ ہے۔ مناظر کا حسن دل میں یوں چٹکیاں لیتا ہے،


جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں


پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی
جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی
ہوک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی
اے غم دل کیا کروں ہے وحشتِ دل کیا کروں


اس آگ کا بھڑکنا دیکھئے،
دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں


خوابِ سحر میں حیرت انگیز سادگی کے ساتھ اپنی بات کہی ہے،


ذہنِ انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
کچھ نہیں تو کم سے کم خوابِ سحر دیکھا تو ہے
جس طرف دیکھا نہ جاتا تھا ادھر دیکھا تو ہے


نذر علی گڑھ میں حیرت انگیز حسن اور سحرکاری کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کی تہذیبی عظمت کا ترانہ گایا ہے،


جو طاقِ حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے
اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے


ہر شام ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شبِ شیراز یہاں
ہے سارے جہاں کا سوز یہاں ہے سارے جہاں کا ساز یہاں


آ آ کے ہزاروں بار یہاں خود آگ بھی ہم نے لگائی ہے
پھر سارے جہاں نے دیکھا ہے یہ آگ ہمیں نے بجھائی ہے


جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسےگا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہِ گراں پر برسےگا


ہر سر و سمن پر برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسےگا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے، یہ ابر ہمیشہ برسےگا


مجازؔ کی نظموں کے مقابلے میں اس کی غزلوں کی اہمیت کم ہے، مگر ان میں بھی ہمیں شوق کی بے باکی، جنوں کی بلند حوصلگی، جذبے کی مصوری، درد کی داستان، غرض بہت کچھ ملتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے،


ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے


یہ رنگِ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی، کچھ اٹھ بھی گئے، کچھ آ بھی گئے


اے شوقِ نظارہ کیا کہیے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوقِ تصور کیا کیجے ہم صورتِ جاناں بھول گئے


سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول گئے


دل دھڑک اٹھتا ہے خود اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزلِ جاناں سے بہت دور نہیں


کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھیے
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم


بارہا ایسا ہوا ہے یاد تک دل میں نہ تھی
بارہا مستی میں لب پر ان کا نام آہی گیا


شوق کے ہاتھوں اے دلِ مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے حسن بھی کیا رسوا ہوگا


واعظِ سادہ لوح سے کہہ دو چھوڑے عقبیٰ کی باتیں
اس دنیا میں کیا رکھا ہے اس دنیا میں کیا ہوگا


جنونِ شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے


بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے


ابھی بزمِ طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پرنم نہیں ہے


بایں سیلِ غم و سیلِ حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے


یہ بجلی چمکتی ہے کیوں دم بہ دم
چمن میں کوئی آشیانہ بھی ہے


زمانے سے آگے تو بڑھیے مجازؔ
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے


جیساکہ میں نے شروع میں کہا تھا مجازؔ کی شاعری پر بے لاگ تبصرہ تو ابھی ممکن نہیں ہے مگر اس کی شخصیت اور شاعری کے متعلق جو نقش دلوں میں بیٹھ گئے ہیں، ان کی کچھ عکاسی تو کی جاسکتی ہے۔ مجازؔ کی زندگی اور شاعری میں رومانیت کی رَو کی ہر لہر ملتی ہے۔ ’طفلی کے خواب‘ سے اعتراف تک ایک خاصی مربوط داستان ہے۔ مجازؔ کی رومانیت میں جو جان دار، صحت مند اور باشعور حصہ ہے، اس کی قدر و قیمت مستقل ہے لیکن اس کی پوری شاعری بھی ہمارے لیے بصیرت و عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ وہ ایک شہاب ثاقب کی طرح ہمارے ادبی افق پر رونما ہوا تھا۔ اس کی روشنی بڑی نظر نواز تھی، دیکھتے دیکھتے سستی داد، طبیعت کی کمزوری اور خوابوں کی موجودہ پست اور کاروباری دنیا میں کوئی قیمت نہ ہونے کی وجہ سے اس شعلے کو زمانے کی نظر کھا گئی مگر اس نے ہمیں درد و داغ، آرزو اور جستجو کا جو خزانہ دیا ہے، اس سے ہم کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتے۔