میں اس کو ڈھونڈھتا ہوں ترے التفات میں
میں اس کو ڈھونڈھتا ہوں ترے التفات میں
تاریخ چھوڑ آئی جسے سومنات میں
مٹھی میں اپنی ایسے لکیروں کو قید کر
جیسے ترا نصیب ہو تیرے ہی ہات میں
کیسے یقین آئے بھلا اس کی بات کا
جس کا مزاج مل نہ سکے بات بات میں
وہ جو فضول خرچ ہے کل نا شناس بھی
برکت تلاش کرتا ہے چھ آٹھ سات میں
سوداگروں میں کتنی ہی راتیں گزار کر
قیمت کی نبض ڈوب گئی ایک رات میں
انساں نے مہر و ماہ کے پردے اٹھا دئے
خود کو تلاش کر نہ سکا کائنات میں