میں ٹوٹ کر اسے چاہوں یہ اختیار بھی ہو

میں ٹوٹ کر اسے چاہوں یہ اختیار بھی ہو
سمیٹ لے گا مجھے اس کا اعتبار بھی ہو


نئی رتوں میں وہ کچھ اور بھی قریب آئے
گئی رتوں کا سلگتا سا انتظار بھی ہو


میں اس کے ساتھ کو ہر لمحہ معتبر جانوں
وہ ہم سفر ہے تو مجھ سا ہی بے دیار بھی ہو


مرے خلوص کا انداز یہ بھی سچا ہے
رکھوں نہ ربط مگر دوستی شمار بھی ہو


سفر پہ نکلوں تو رسم سفر بدل جائے
کنارہ بڑھ کے کبھی خود ہی ہمکنار بھی ہو