میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں

میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں
اک قیامت ہے ترے ہاتھ میں تلوار نہیں


کچھ پتا منزل مقصود کا پایا ہم نے
جب یہ جانا کہ ہمیں طاقت رفتار نہیں


چشم بد دور بہت پھرتے ہیں اغیار کے ساتھ
غیرت عشق سے اب تک وہ خبردار نہیں


ہو چکا ناز اٹھانے میں ہے گو کام تمام
للہ الحمد کہ باہم کوئی تکرار نہیں


مدتوں رشک نے اغیار سے ملنے نہ دیا
دل نے آخر یہ دیا حکم کہ کچھ عار نہیں


اصل مقصود کا ہر چیز میں ملتا ہے پتا
ورنہ ہم اور کسی شے کے طلب گار نہیں


بات جو دل میں چھپاتے نہیں بنتی حالیؔ
سخت مشکل ہے کہ وہ قابل اظہار نہیں