میں تو فدائے نرگس مستانہ ہو گیا
میں تو فدائے نرگس مستانہ ہو گیا
پیمانہ سے دل اب مرا مے خانہ ہو گیا
ہر رنگ میں مجھے ہے مع مشک بو کا رنگ
جو ظرف ہاتھ آ گیا پیمانہ ہو گیا
کچھ مخمصات دہر تھے دیوانگی سے کم
اچھا ہوا کہ عشق میں دیوانہ ہو گیا
دل چاہئے گداز نہیں زور و زر سے کام
اپنی مثال عشق میں پروانہ ہو گیا
ہوتا نہ باغ دل کبھی شاہان التفات
اچھا ہوا بہار میں ویرانہ ہو گیا
دانائی زیر دام ہے اے مرغ دل عبث
مانا کہ دانہ کھا کے تو اب دانا ہو گیا
بیخودؔ تو نارسائی زلف بتاں نہ پوچھ
قسمت پہ میری خندہ زن اب شانہ ہو گیا