میں تیرے ہجر زدہ موسموں کی زد میں ہوں
میں تیرے ہجر زدہ موسموں کی زد میں ہوں
پس خیال تری قربتوں کی حد میں ہوں
میں چاہتی ہوں اجالا مری زمیں پر ہو
میں اک دیا ہوں مگر روشنی کی مد میں ہوں
یہ نسل نو مرے لہجے سے متفق کب ہے
میں اک سوال ہوں لیکن قبول و رد میں ہوں
کشاں کشاں لیے پھرتی ہے جستجو کوئی
خبر نہیں کہ جنوں میں ہوں یا خرد میں ہوں
مرا ہنر مرا اپنا ہے مستعار نہیں
میں جس قدر بھی جہاں بھی ہوں اپنے قد میں ہوں
کدورتیں ہیں یہاں نفرت و عداوت ہے
مگر میں پھر بھی یہاں فکر نیک و بد میں ہوں
وہ دوستی میں غزلؔ حد سے گر گئے لیکن
میں دشمنی کو نبھا کر بھی اپنی حد میں ہوں