میں ساز ڈھونڈتی رہی
احساس اولیں
ایک موہوم اضطراب سا ہے
اک تلاطم سا پیچ و تاب سا ہے
امڈے آتے ہیں خودبخود آنسو
دل پہ قابو نہ آنکھ پر قابو
دل میں اک درد میٹھا میٹھا سا
رنگ چہرے کا پھیکا پھیکا سا
زلف بکھری ہوئی پریشاں حال
آپ ہی آپ جی ہوا ہے نڈھال
سینے میں اک چبھن سی ہوتی ہے
آنکھوں میں کیوں جلن سی ہوتی ہے
سر میں پنہاں تصور موہوم
ہاے یہ آرزوے نامعلوم
ایک نالہ سا ہے بغیر آواز
ایک ہلچل سی ہے نہ سوز نہ ساز
کیوں یہ حالت ہے بے قراری کی
سانس بھی کھل کے آ نہیں سکتی
روح میں انتشار سا کیا ہے
دل کو یہ انتظار سا کیا ہے