میں پستی اخلاق بشر دیکھ رہا ہوں
میں پستی اخلاق بشر دیکھ رہا ہوں
پھر نظم جہاں زیر و زبر دیکھ رہا ہوں
مظلوم کی آہوں کا گزر دیکھ رہا ہوں
گو دور بہت باب اثر دیکھ رہا ہوں
مقصد یہ شہیدان وطن کا نہ تھا ہرگز
جو آج شہادت کا ثمر دیکھ رہا ہوں
یوں تو ہے ہر اک جنس گراں ہند میں لیکن
ارزاں ہے فقط خون بشر دیکھ رہا ہوں
غنچوں کے لبوں پر کہاں آثار تبسم
ہر گل کا یہاں چاک جگر دیکھ رہا ہوں
سچ ہے کسی مجبور کی فریاد کو منظرؔ
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں