میں پہنچا اپنی منزل تک مگر آہستہ آہستہ

میں پہنچا اپنی منزل تک مگر آہستہ آہستہ
کیا ہے پورا اک مشکل سفر آہستہ آہستہ


نہیں آساں حریم ناز تک کی تھی رسائی بھی
ہوئے تسخیر لیکن بام و در آہستہ آہستہ


متاع عزم محکم ہی کا اس کو معجزہ کہئے
کہ منزل بن گئی خود رہ گزر آہستہ آہستہ


بہت ہی سخت گرچہ زندگی کے معرکے تھے بھی
کھلا ہے مجھ پہ ہر باب ظفر آہستہ آہستہ


رہا ہے رشتہ ایسا سنگ و تیشہ سے کہ لے آیا
میں جوئے شیر اک شیریں کے گھر آہستہ آہستہ


ہنر ایسا چراغوں کے دھواں پینے سے آیا ہے
کہ شبنم میں بدل جاتے شرر آہستہ آہستہ


نہیں کچھ کام آئی ہے کسی کی کیمیا سازی
بنے قطرے پسینے کے گہر آہستہ آہستہ


ستاروں کو بنانا آفتاب آساں نہیں ہوتا
کئے کچھ معرکے ایسے بھی سر آہستہ آہستہ


ستائش نکتہ چینی اور صلے سے بے نیازانہ
میں بس چلتا رہا اپنی ڈگر آہستہ آہستہ


فقط اک سعئ پیہم زندگی کا اپنی عنواں ہے
شب تاریک سے پھوٹی سحر آہستہ آہستہ


فلک کے چاند تاروں سے رقابت بھی نہیں لیکن
کیا دامن کو خود رشک قمر آہستہ آہستہ


گل و غنچہ کہ رنگ و بو میں پا لیتا ہوں سب ان میں
کھلے ہیں اس طرح داغ جگر آہستہ آہستہ


حصار ناشناساں ہو کہ بزم نکتہ چیناں ہو
مجھے آ ہی گیا کرنا بسر آہستہ آہستہ


میں دلی لکھنؤ میں گرچہ پہلے ہی سے تھا لیکن
ہوا ہوں گھر میں طرزیؔ معتبر آہستہ آہستہ