میں نشے میں ہوں
ہڑتال کرنے سے نہ ٹلو میں نشے میں ہوں
اے غیر ملکیوں کی کلو میں نشے میں ہوں
میرا جلوس لے کے چلو میں نشے میں ہوں
پھر خاک سب کے منہ پہ ملو میں نشے میں ہوں
''یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں''
''اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں''
گھوڑے پہ میں سوار ہوں سنتے ہو پیدلو
مجھ پر سوار نشہ ہے میں اس کے ہوں جلو
جلسوں میں جب بھی جاؤ مجھے ساتھ لے چلو
اور خالی خولی نعروں سے پھر مونگ بھی دلو
''ایک ایک فرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو''
''جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں''
اس قوم کی فلاح ہے جام و سبو کے بیچ
تم انتخاب جا کے لڑو ہاؤ ہو کے بیچ
دشنام اور بلووں کے اور دو بہ دو کے بیچ
جیسے کہ کوئی بیٹھا ہو بزم عدو کے بیچ
''مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ''
''جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں''
میں رہنمائے قوم ہوں، یہ ہو چکا ہے طے
کھاتا رہا ہوں گالیاں ماضی میں پے بہ پے
گزری ہے عمر جیل میں لیکن یہ تا بہ کے
میرا جلوس لے کے مری قوم جب چلے
''یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے''
''یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں''
مجھ پر بھی وقت آ کے پڑے ہیں یہاں کڑے
یہ وہ زمیں ہے جس پہ گرے ہیں بڑے بڑے
تم کیوں اکھاڑتے ہو وہ مردے جو ہیں گڑے
دیکھے نہیں ہیں تم نے جو چکنے تھے وہ گھڑے
''معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے''
''تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں''
یہ بات عقل میں بھی سماتی نہیں ہے کچھ
شہرت تو مفت ووٹ دلاتی نہیں ہے کچھ
ایمانداری کام بناتی نہیں ہے کچھ
لٹھ کی زبان بھی مجھے آتی نہیں ہے کچھ
بھاگی تمہاری رائے تو جاتی نہیں ہے کچھ
''چلتا ہوں میں بھی، ٹک تو رہو، میں نشے میں ہوں
آیا ہے وقت ایسا جو پہلے نہ تھا کبھی
دشوار راستہ بھی ہے منزل ہے دور ابھی
پبلک سے جھوٹے وعدے بھی کر لیتے ہیں سبھی
میں نے بھی اختیار کی یہ پالیسی جبھی
''نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی''
''جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں''
بدمست ہو گئے ہو الیکشن میں جعفریؔ
سر میں نشے کے ساتھ ہے سودائے رہبری
تم کس جگہ کے پنچ ہو کیا ہے برادری
کیوں ڈھونڈتے ہو ملک میں جو ووٹ ہو فری
تم ہوش میں نہیں ہو تو ہے بات دوسری
یہ کہہ کے گھر میں بیٹھ رہو میں نشے میں ہوں