میں کس طلسم کے گھیرے میں ہوں پتا بھی نہیں
میں کس طلسم کے گھیرے میں ہوں پتا بھی نہیں
کہ پاؤں چلتے رہے راستہ کٹا بھی نہیں
ترا خیال بھی آئے تو کس طرح آئے
ترا خیال تو دل سے کبھی گیا بھی نہیں
نہ جانے کون یہ اندر چھپا ہوا ہے مرے
میں اپنے جسم سے اتنا تو آشنا بھی نہیں
کریں تو کیسے کریں حبس ٹوٹنے کی دعا
یہ وہ دیار کہ چلتی یہاں ہوا بھی نہیں
یہ قریہ کون سا ہے بد دعا یہ کس کی ہے
یہاں تو لب پہ کسی کے کوئی دعا بھی نہیں
اس ایک شخص کی ہر بات مان لی ہے ندیمؔ
وہ ایک شخص اگرچہ مرا خدا بھی نہیں