میں کس لئے ہوں میں کیا ہوں کیوں آ گیا ہوں یہاں

میں کس لئے ہوں میں کیا ہوں کیوں آ گیا ہوں یہاں
بہ روئے آئینہ کب سے کھڑا ہوں میں حیراں


بڑی عریض و وسیع ہے بہت کشادہ ہے
ہے تنگ دستوں پہ پھر تنگ کیوں فضائے جہاں


جھلک دکھا کے اچانک سدھار جاتا ہے
مثال خواب حسیں ہے حقیقت انساں


میں سر نگوں ہی رہا غایت ندامت سے
پلٹ گئی مرے پاس آ کے رحمت یزداں


چھپائے بیٹھا ہوں میں جس کو دل کے پردوں میں
وہ نقش خواب ابھی تک ہے ماورائے بیاں


ہر ایک دم میں مرے ان کا دم بھی شامل ہے
غم جہاں سے ہو کیسے جدا غم جاناں


اسی نظر اسی شے کے ہیں منتظر ہم تو
کمان یار سے نکلے جو پرفشاں پیچاں


اسی تبسم شاداب کی تمنا ہے
ہلال لب سے جو پھوٹے خراماں و رقصاں


عجیب رنگ تھے بزم نشاط جاناں کے
عجیب سوگ میں ہیں انتظار کی گھڑیاں


بغیر ان کے تھی ممکن کہاں گزر اوقات
گراں ہے دولت قاروں سے دولت یاراں


تمام نوع کے نیرنگ اس میں ہیں اظہرؔ
غزل تری ہے کہ آئینۂ بہار و خزاں