میں خود اپنی غزلیں اکثر پڑھتا ہوں حیرانی سے

میں خود اپنی غزلیں اکثر پڑھتا ہوں حیرانی سے
کیسے پیچیدہ باتیں کہہ لیتا ہوں آسانی سے


جس گھر میں بچے ہوتے ہیں اس گھر سے رہتی ہے دور
ویرانی کو ڈر لگتا ہے بچوں کی شیطانی سے


پیڑ بھی آنگن سے کٹوایا اور منڈیر پہ کانچ جڑے
مشکل سے آزاد ہوا ہوں چڑیوں کی نگرانی سے


درد گھنیرا ہجر کا صحرا گھور اندھیرا اور یادیں
رام نکال یہ سارے راون میری رام کہانی سے


تر آنکھیں ساحل پر رکھ کر کان لگا کر سنتا ہوں
گہرا پانی کیا کہتا ہے مل کر اتھلے پانی سے


یاد دعاؤں میں رکھو گے رسماً کہہ تو دیتے ہو
کس نے کس کو یاد کیا ہے رسمی یاد دہانی سے