میں خاک ہوں آب ہوں ہوا ہوں
میں خاک ہوں آب ہوں ہوا ہوں
اور آگ کی طرح جل رہا ہوں
تہہ خانۂ ذہن میں نہ جانے
کیا شے ہے جسے ٹٹولتا ہوں
بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے
جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں
سنتا تو سبھی کی ہوں مگر میں
کرتا ہوں وہی جو چاہتا ہوں
اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں
ہے کوئی کہ میں بہت برا ہوں
پاتا ہوں اسے بھی اپنی جانب
مڑ کر جو کسی کو دیکھتا ہوں
بچنا ہے محال اس مرض میں
جینے کے مرض میں مبتلا ہوں
سنتا ہی نہ ہو کوئی تو کیوں میں
چلاؤں فغاں کروں کراہوں
اوروں سے تو اجتناب تھا ہی
اب اپنے وجود سے خفا ہوں
باقی ہیں جو چند روز وہ بھی
تقدیر کے نام لکھ رہا ہوں
لکھتا ہوں ہر ایک بات سن کر
یہ بات تو میں بھی کہہ چکا ہوں