میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا
میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا
شعلے کا کیا قصور جو پتھر میں قید تھا
جس کی تہوں میں خود ہی مچلتی ہیں آندھیاں
میں خواہشوں کے ایسے سمندر میں قید تھا
پھینکے ہے مجھ کو دور یہ گردش ہے کتنی تیز
کن مشکلوں سے ذات کے محور میں قید تھا
آتے ہیں سارے راستے مڑ کر یہیں شکیلؔ
زنداں مرا یہی تھا اسی گھر میں قید تھا
جس کا طریق جنگ ہی شب خوں رہا شکیلؔ
میں ایسے حادثات کے لشکر میں قید تھا