میں جو حاصل ترے کوچے کی گدائی کرتا

میں جو حاصل ترے کوچے کی گدائی کرتا
بندگی کہتے ہیں کس شے کو خدائی کرتا


ذرے ذرے کو ترے کوچے میں تھا مجھ سے غبار
میں جو کرتا بھی تو کس کس سے صفائی کرتا


معتکف جو ترے کوچے کے تھے اٹھتے نہ کبھی
کعبہ خود آ کے اگر ناصیہ سائی کرتا


سوچ ناحق ہے اسیران قفس کے دل کو
کیا پڑی تھی جو کوئی فکر رہائی کرتا


کانپتے ہاتھوں سے کھلتا نہ قفس اے صیاد
کاش منظور بھی تو میری رہائی کرتا


شادؔ دشمن کی شکایت کا وظیفہ بیکار
کیا غرض تھی کہ مرے ساتھ بھلائی کرتا