میں جب بھی ترے شہر خوش آثار سے نکلا

میں جب بھی ترے شہر خوش آثار سے نکلا
اک قبر کا ٹکڑا بھی فلک زار سے نکلا


ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی
ہر جیت کا مژدہ تری تلوار سے نکلا


پھر اپنی ہی ہیبت میں گرفتار ہوا میں
پھر کوئی درندہ مرے پندار سے نکلا


یہ کس نے سفینے کو نکالا ہے بھنور سے
یہ کون شناور ہے جو منجدھار سے نکلا


کچھ بھی نہ ملا میرے خریدار کو مجھ میں
اس کا بھی پتا چشم خریدار سے نکلا


یہ کون ہے جو بن کے کرن ناچ رہا ہے
یہ کون ہے جو روزن دیوار سے نکلا


اس سمت نظر آئے غزالان قبا پوش
اس سمت ضیاؔ عقل کے آزار سے نکلا