میں
حیات کے بحر بیکراں میں مثال قطرہ ہوں اور کیا ہوں
مگر شعور خودی ہے مجھ کو میں اپنی ہستی سے آشنا ہوں
یہ میرے ساز انا کی لے ہے جو بزم عالم میں گونجتی ہے
وہ جس میں ہستی کا زیر و بم ہے میں جذبۂ دل کی وہ صدا ہوں
فنا کی تیز اور تند آندھی میں ضو فشاں جو رہی ہمیشہ
حیات کا نور مجھ میں پنہاں جہاں میں اک مشعل بقا ہوں
مرے ہی ذوق نظر سے قائم ہے رنگ گلزار زندگی کا
بہار زیر قدم ہے جس کے میں وہ نسیم لطیف پا ہوں
مری نظر کی تجلیوں میں یہ ماہ و انجم کی روشنی ہے
اجالا کون و مکاں میں جس سے میں وہ شعاع تجلی زا ہوں