میں بزم تصور میں اسے لائے ہوئے تھا
میں بزم تصور میں اسے لائے ہوئے تھا
جو ساتھ نہ آنے کی قسم کھائے ہوئے تھا
دل جرم محبت سے کبھی رہ نہ سکا باز
حالانکہ بہت بار سزا پائے ہوئے تھا
ہم چاہتے تھے کوئی سنے بات ہماری
یہ شوق ہمیں گھر سے نکلوائے ہوئے تھا
ہونے نہ دیا خود پہ مسلط اسے میں نے
جس شخص کو جی جان سے اپنائے ہوئے تھا
بیٹھے تھے شعورؔ آج مرے پاس وہ گم صم
میں کھوئے ہوئے تھا نہ انہیں پائے ہوئے تھا