میں اپنے عجز ذات کا اظہار ہو گیا
میں اپنے عجز ذات کا اظہار ہو گیا
گم کردہ راہ منزل دشوار ہو گیا
کل تک تھا ایک پھول مہکتا ہوا مگر
ایسی چلیں ہوائیں کہ میں خار ہو گیا
بے سود ہو گئی ہیں صلہ رحمیاں تمام
خود اپنے حق میں آج میں تلوار ہو گیا
چہرہ چھپائے پھرتا ہوں خود اپنے آپ سے
میں جو تری نظر میں گنہ گار ہو گیا
اب اور دے فریب نہ اے گردش جہاں
خود کو سنبھال نیند سے بے دار ہو گیا
محسوس ہو رہی ہے تمہاری کمی ضیاؔ
تم سے ملے زمانہ مرے یار ہو گیا