میں اپنے آپ سے پیچھا چھڑا کے

میں اپنے آپ سے پیچھا چھڑا کے
نکل جاؤں کہیں رسی تڑا کے


قدم آخر اٹھانا ہی پڑے گا
نہیں تو گر پڑوں گا ڈگمگا کے


کہاں ہے اب وہ مشق آوارگی کی
سنبھل جاؤں گا لیکن لڑکھڑا کے


کسی کے در پہ جانے کا نتیجہ
میں دیکھ آیا ہوں اس کے در پہ جا کے


بسر کی اس طرح دنیا میں گویا
گزاری جیل میں چکی چلا کے


لکھی ہے بندگی میں سربلندی
ملو ہر آدمی سے سر جھکا کے


کسی کے کام آؤ زندگی میں
خوشی ہوگی کسی کے کام آ کے