میں اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پایا

میں اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پایا
اسی لئے میں تجھے جان ہی نہیں پایا


یہ دیکھ کر وہ پریشاں ہے تیری محفل میں
کسی کو اس نے پریشان ہی نہیں پایا


ابھی سے تجھ کو پڑی ہے وصال کی مری جاں
ابھی تو ہجر نے عنوان ہی نہیں پایا


وہ ایک لمحہ مری زندگی پہ طاری ہے
جو ایک لمحہ ابھی آن ہی نہیں پایا


خوشی خوشی تری دنیا کو چھوڑ آئے ہم
خوشی کا جب کوئی سامان ہی نہیں پایا


جواز مل نہ سکا مجھ کو اپنے ہونے کا
سو اپنے آپ کو انسان ہی نہیں پایا


عجیب ہجر کیا ہم نے ہجر میں مومنؔ
وصال یار کا ارمان ہی نہیں پایا