میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا

میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا
مگر یہ بات زمیں سے تو کہہ نہیں سکتا


کسی کے چہرے کو کب تک نگاہ میں رکھوں
سفر میں ایک ہی منظر تو رہ نہیں سکتا


یہ آزمانے کی فرصت تجھے کبھی مل جائے
میں آنکھوں آنکھوں میں کیا بات کہہ نہیں سکتا


سہارا لینا ہی پڑتا ہے مجھ کو دریا کا
میں ایک قطرہ ہوں تنہا تو بہہ نہیں سکتا


لگا کے دیکھ لے جو بھی حساب آتا ہو
مجھے گھٹا کے وہ گنتی میں رہ نہیں سکتا


یہ چند لمحوں کی بے اختیاریاں ہیں وسیمؔ
گنہ سے رشتہ بہت دیر رہ نہیں سکتا