میخانے کا در کیوں ہے مقفل متواتر
میخانے کا در کیوں ہے مقفل متواتر
رہتی ہے طبیعت مری بوجھل متواتر
کرتا ہے وہ کیا تیغ کو صیقل متواتر
اک برق ہے رقصاں سر مقتل متواتر
وہ کل بھی کبھی آئے گی جس کل کو تو آئے
سنتا ہی رہوں یا تری کل کل متواتر
کب قیس کے مرنے سے کوئی فرق پڑا ہے
آتے ہی رہے دشت میں پاگل متواتر
کل خواب میں دیکھے تھے دھنک رنگ فلک پر
یاد آتا ہے مجھ کو ترا آنچل متواتر
مہتاب رخ اترا ہے کوئی اس میں یقیناً
ہے قلزم دل میں جو یہ ہلچل متواتر
سلمانؔ کو دیکھو کہ ہے مقتل میں وہ رقصاں
لب پر ہے ترا ذکر مسلسل متواتر