محرم عشق ہیں ہونٹوں کو سیے بیٹھے ہیں
محرم عشق ہیں ہونٹوں کو سیے بیٹھے ہیں
شیشۂ دل میں کئی داغ لئے بیٹھے ہیں
ماہ و انجم پہ پہنچ کر بھی نہیں رکتی نظر
رخ کسی اور ہی منزل کا کئے بیٹھے ہیں
اب تو کچھ اور ہی عالم ہے فروغ غم سے
صورت جاں ترے ہر غم کو لئے بیٹھے ہیں
بھولتا ہی نہیں اس نرگس شہلا کا کرم
ایک مے ہے کہ شب و روز پئے بیٹھے ہیں
ایک ہی شکل ہے سو رنگ سے دل میں آباد
ایک ہی عکس کے سو عکس لئے بیٹھے ہیں
جب سے چھوڑی ہے تمنائے سکوں اے اظہرؔ
ہر کٹھن راہ کو ہموار کئے بیٹھے ہیں